لاہور (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کرانے کیلیے شروع ہونے والی تحریک کے دوران جہاں وکلا اور سول سوسائٹی نے قربانیاں پیش کی تھیں وہیں پولیس اہلکار بھی متعدد مقامات پر دہشت گردی اور بم دھماکوں کا نشانہ بنے تھے۔ 10 جنوری 2008 بھی انھی تاریخوں میں سے ایک ہے جب وکلا کی ریلی کی حفاظت کے لیے گھروں سے نکلنے والے پولیس اہلکار لاہور ہائیکورٹ کے جنرل پوسٹ آفس گیٹ پر خودکش بمبار کا نشانہ بنے جس سے موقع پر ہی 26 پولیس اہلکار وں سمیت متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔
ہلاک ہونے والے پولیس ملازمین میں سے 3 کا تعلق صوبائی دارالحکومت لاہور سے تھا جبکہ باقی صوبے کے دیگر اضلاع سے شہریوں کی حفاظت کیلیے اپنی خدمات انجام دینے آئے تھے۔ یہ دھماکا جس جگہ پرہوا تھا وہاں پر پولیس کی غازی کمپنی کی ریزروپلاٹون تعینات تھی جن کی مجموعی تعداد 60 کے قریب تھی۔ خودکش بم دھماکے میں شہید ہونے والے والے ایک کانسٹیبل نعیم الرحمن کی کچھ عرصہ بعد شادی طے تھی۔
اس دھماکے میں شہید ہونے والوں کیلیے ایک یاد گار بھی تعمیر کی گئی تھی جس پر شہدا کے نام درج ہیں کچھ عرصہ تک تو اس یاد گار پر پولیس افسران اور دیگر اداروں کی طرف سے گلدستے رکھے جاتے رہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے ان محکموں نے اپنی ’’ روایات‘‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اس یاد گار کو بھلا دیا ہے یہ یادگار اب صرف ایک تختی کے طور پر آویزاں ہے جسے شاید طویل عرصہ سے صاف بھی نہیں کیا گیا ہے۔ جب سابق چیف جسٹس کی موجودگی میں لاہور ہائیکورٹ بار میں وکلا پرجوش تقریریں کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں 11 بج کر 40 منٹ پر ایک زور دھماکے نے ہائیکورٹ کے اندر موجود وکلا سمیت مال روڈ کے ارد گرد عمارتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس دھماکے میں شہید ہونے والے اہلکار پولیس لائن قلعہ گجر سنگھ میں رہائش پذیر تھے۔ شہید ہونے والوں میں اے ایس آئی شیش احمد، اے ایس آئی رفتاج احمد، ہیڈکانسٹیبل ریاض احمد، کانسٹیبل نعیم الرحمن، محمد اصغر کانسٹیبل، محمد یعقوب کانسٹیبل، محمد منشا، ظہیر شوکت، اعجاز احمد، شاہد غفور، محمد اصغر، محمد سلیم، منظور احمد، محمد احسان، محمد آصف، محمد شہباز ، غلام مصطفی، شفیق احمد، محمد رفیق، محمد الیاس، شعیب الرحمن، فراز، سعید، ذوالفقاراور اشرف سمیت دیگرشامل ہیں۔ اس دھماکے کا مقدمہ تھانہ پرانی انارکلی میں درج کیا گیا تھا۔اس کی ایف آئی آر نمبر 15/08 جس کا مدعی ایس ایچ او پرانی انارکلی انسپکٹر ظہیرالدین بابر تھے۔