تحریر : اختر سردار چودھری ،کسووال یکم مارچ سے 25 مارچ 1971 ء تک عوامی لیگ ،مکتی باہنی،اور ایسے بے شمار چھوٹے گروہوں نے غیر بنگالیوں (بہاریوں ،پنجابیوں ،پٹھانوں )وغیرہ کا قتل عام کیا ۔اس دوران کرفیو نافذ تھا، جنرل یحییٰ کا کرفیو لگا تھا اس کے باوجود یہاں ایک بات بہت توجہ کے قابل ہے ۔اوپر سے حکم تھاکہ عوامی لیگ کے خلاف سختی نہ کی جائے، اس کے بعد 26 مارچ سے 7 اپریل تک پاکستانی فوج نے جوابی کاروائی کی اور آپریشن شروع کیا پہلی بات تو یہ کہ فوج کا استعمال کرنے کا مطلب ہوتا ہے، سختی سے بغاوت کو کچل دیا جائے ،لیکن یہاں فوج کو ایک حکم دیا گیا کہ اگر کوئی کرفیو کی خلاف ورزی بھی کرے تو اسے کچھ نہ کہا جائے، اس وقت تک جب تک وہ فوج پر حملہ آور نہ ہو ۔اس سے زیادہ فوج کی اور کیا بے عزتی ہونا تھی ۔یہ پاک فوج کا ایک راز تھا جو اس وقت میجر خالد مشرف نے عوامی لیگ کے دفتر پہنچا دیا ۔جس نے مشرقی پاکستان کے الگ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی، اب تک جو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کو فوج کا ڈر تھا وہ نکل گیا اور وہ فوج پر بھی حملے کرنے لگی ،ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے میدان جنگ میں بھارت سے اتنی شکست نہیں کھائی جتنی ہم نے میڈیا کے میدان میں پروپیگنڈہ کے محاذ پر کھائی، پاکستانی فوج کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔
یہ کیسا ستم ہے کہ 1906ء میں اسی ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ،جو پاکستان کی بانی جماعت کہلائی اور یہ ڈھاکہ 1971 ء میں پاکستان سے الگ ہو گیا اور بنگلہ دیش بن گیا جو اب ایک بھارت کی طفیلی ریاست ہے ۔سقوط ڈھاکہ ہمارے ملک کا ایک سیاہ ترین ،دل دکھانے والا ،اپنوں کے بچھڑ جانے کا ،الگ ہو جانے کا ،گھر ،خاندان کے ٹوٹ جانے کا دکھ ہر محبت وطن پاکستانی چاہے اس کا تعلق بنگلہ دیش سے ہو یا پاکستان سے ہو کو ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ بنگلہ دیش اس دن آزادی کادن مناتا ہے اور پاکستان میں اس دن غم کے بادل امڈ آتے ہیں ۔بنگلہ دیش میں بھی ایسے افراد ہیں جو دل سے اس دن خوش نہیں ہوتے وہ بھی پاکستان کے ٹوٹنے کا غم مناتے ہیں ۔1947ء میں نظریہ پاکستان کی بنیاد پر پاکستان کی انگریزوں اور ہندوں سے آزادی میں موجودہ بنگلہ دیش کے باسیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔اور صرف 24 سال بعد 16 دسمبر 1971ء کو یہ ملک ٹوٹ گیا ،قوموں کی زندگی میں 24 سال کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی
لیکن اتنے عرصے میں ایک ملک کا ٹوٹ جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔سانحہ مشرقی پاکستان کو44 برس بیت گئے ،کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس کے باوجود آج بھی پاکستانی قوم ،حکمرانوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔لیکن اس دن ملک بھر میں سیمینار ہوتے ہیں، کالم لکھے جاتے ہیں ،بے شمار جگہوں پر تقریبات ہوتی ہیں، دانشور پرزور الفاظ میں اس کا دکھڑا روتے ہیں۔جواس المیہ سے نظریہ پاکستان کو پہنچا ،دوسری طرف پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا اس کو اسلام متحد کیوں نہ رکھ سکا یہ کہہ کر آج بھی نظریہ پاکستان کے دشمن اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ہمارے دانشور ،صحافی،لیڈر ،رہنما،حکمران سقوط ڈھاکہ کا ذکر ایسے کرتے ہیں، جیسے اس سے بہت سبق سیکھا یہ آپ کو ایک ایک کر کے سقوط ڈھاکہ کے اسباب ،وجوہات ،ذمہ داران کانام بتائیں گے کہ ان افراد کے غلط فیصلے ،خود غرضی ،لالچ ،ضد کی بناں پر ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے، ان کی تقاریر سن کر ایسا لگتا ہے جیسے اب وہ باقی جو پاکستان بچا ہے، اس میں اب اسلام کے نفاذ کے لیے دن رات ایک کر دیں گے، اس طرح قیام پاکستان کا مقصد پورا ہو جائے گا، لیکن افسوس دوسرے دن یہ دانشور ،صحافی ،لیڈر،رہنما اور حکمران نام نہاد جمہوریت ،اپنے فرقہ ،مسلک،زبان ،صوبائیت کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں ۔یہ رہنما نفرت پھیلا رہے ہوتے ہیں۔
Pakistan
کل کی طرح آج بھی جو پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، وہ جیل کی بجائے قانون،جمہوریت کی چھتری کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں ۔سانحہ مشرقی پاکستان میں 90 ہزار پاکستانی فوجی بھارت کے قبضے میں چلے گئے تھے اندراگاندھی نے اس موقع پر کہا تھا کہ آج نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے ۔اس سانحہ کے دوران ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا ۔اور یہ سب سیاسی رسہ کشی کی بنا پر ، سیاست دانوں کی حصول اقتدار کے لیے جنگ،اپنی انا پر ملک قربان کر دینے والوں کی ہڈدھرمی،ضد پر قائم رہنے کی وجہ سے ہوا ۔ان کے ذمہ داروں کا درست طور پر تعین نہ ہو سکا ۔آج تک اس سوال کا حتمی جواب نہ مل سکا ہے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟سقوط ڈھاکہ کے اسباب کے تعین کے لیے محمود الرحمن کمیشن بنایا گیا، جس کی رپورٹ عرصہ دراز تک قومی مفاد(ذمہ دارافراد کو بچانے)کے لیے عوام سے چھپائی گئی۔اور جب عوام کے سامنے پیش کی بھی گئی تو اس کے خاص حصے چھپائے گئے۔ ذمہ داروں کو سزا نہ دی جا سکی ،اس طرح وقت گزرتا گیا اور آئین کا نفاذ کرنے والوں نے اس پر ایک تاریخی جملہ کہا کہ ہم کو اس آئین شکنی کے لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ فلاں فلاں افراد کو احتساب سے بالا تر بنا دیا گیا ہے۔ہم ان کا احتساب نہیں کر سکتے۔
ایک بات کھلے دل سے مان لینی چاہیے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار صرف چند افراد کو کیوں ٹھہرایاجائے،اس کی تو پوری قوم ذمہ دار ہے ۔جب گھر والے ایک دوسرے کو محبت ،اہمیت نہ دیں ،جب اپنے قدر نہ کریں تو یہ ہی ہونا تھا جو ہوا ۔اس میں ہم بھارت کو ذمہ دار کیوں ٹھہرائیں وہ تو دشمن ہے، اس نے تو دشمنی ہی کرنی ہے ،سازش ہی کرے گا ،اس کی سازش کو عملی جامہ پہچانے کے لیے جو اپنے ان کے ساتھ شامل تھے اصل میں وہ ذمہ دار ہیں اور وہ بھی جو بنگلہ دیش کے مسائل کو نظر انداز کرتے رہے ۔سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار میڈیا بھی تھا وہ تصویر کا ایک رخ بتاتا رہا ،نفرتیں پیدا کرتا رہا ،اصل مسائل پر توجہ نہ دی عوام کی رہنمائی نہ کی گئی جوڑنے کی باتیں کرنے کی بجائے توڑنے کی باتیں ہوئیں۔
اس بات سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے نظریہ پاکستان کے دشمنوں نے مقامی غداروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے منصوبے پر عمل کیا تھا ۔اس میں وہ کامیاب رہے دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بات کو ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کو دولخت کرنے والے آج بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ، اور آج بھی غداروں کو خریدا جا رہا ہے ۔بالکل اسی طرح آج بھی ہماری حکومت ،رہنما ،دانشور اس کو نظر انداز کر رہے ہیں کاش ہم نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہوتا ۔تو آج پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا کہ اس میں اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے گا وہ پورا ہو چکا ہوتا ۔اللہ پاکستان کی عوام اور اشرافیہ کو اس کا شعور دے اور پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے ۔آمین۔