تحریر : مہر بشارت صدیقی سانحہ صفورا کے بعد وفاقی حکومت نے قومی ایکشن پلان پر عمل کے لیے موجودہ نظام کو مزید موثر اور خود مختار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔قومی ایکشن پلان کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا جائے گا۔ یہ نظام وزارت داخلہ کے ماتحت ہو گا اور اس مرکزی مانیٹرنگ سیل کے سربراہ وفاقی وزیر داخلہ ہوں گے۔ اس نظام کے تحت وفاقی وزیر داخلہ ہر وقت متعلقہ حکومتوں اور اداروں سے رابطے میں رہیں گے۔ یہ مانیٹرنگ سسٹم قومی ایکشن پلان پر عمل کے حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر حکومت سے بھی رابطے میں رہے گا ہفتہ وار رپورٹ وفاقی وزیر داخلہ کو پیش کی جائے گی۔ وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، محکمہ ہائے داخلہ اور متعلقہ اداروں کے درمیان ون لنک سسٹم کے تحت رابطہ قائم کیا جائے گا۔ تھانوں کی سطح پر بھی انٹیلی جنس نظام فعال کیا جارہا ہے۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ روکنے کے اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔
دہشت گردوں کو مالیاتی وسائل فراہم کرنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شہر قائد میں بدامنی اور دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینلسس ونگ (را) کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو مل گئے ہیں۔ کراچی میں دہشتگردی اور جرائم کے خاتمے کیلئے ہر اقدام کریں گے۔ ہمارے پاس بہت ہمت اور جذبہ ہے۔ کراچی کے حالات بہتر کریں گے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں صوبائی حکومت کیساتھ تعاون کر رہی ہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی حمایت کررہا ہے ،
امن دشمنوں اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں میں سمجھوتا ہے۔ کراچی، شکار پور، پشاور اور واہگہ بارڈر جیسے واقعات دہشت گردوں اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے سمجھوتے کا نتیجہ ہیں، فوج اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے لڑرہی ہے ، مسلح افواج ضرور کامیاب ہوگی۔ پاکستان کا دشمن ایک، لیکن چہرے دو ہیں، ایک دشمن ملک کے اندر اور دوسرا سرحد پار ہے۔ جماعة الدعوة کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ سانحہ صفورہ گوٹھ نے واضح کردیا کہ پاکستان میں دہشت گردی بھارتی ایما پر ہو رہی ہے ، پاکستان میں را کی مداخلت پر حکومتی بیان سے ہمارے موقف کی تائید ہوئی ہے،
Jamat ud Dawa
جماعة الدعوةجو مدتوں سے کہہ رہی تھی آج وہ پورا ملک کہہ رہا ہے ، خطے میں بھارتی شرانگیزی اور امریکی شرارتوں کے خاتمے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ اگر حکومت بھارت سے تجارت اور دوستی کی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے بھارت کی دخل اندازی کا سنجیدگی سے نوٹس لیتی تو دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما نہ ہوتے۔ کراچی سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور لسانی و فرقہ وارانہ جھگڑوں کے خاتمے کے لیے دعوت اور خدمت کو بنیاد بنایا جائے ، حکمت کے ساتھ دعوت میں ہی اللہ نے خیر رکھی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے سانحہ صفورہ کراچی سمیت تمام خونی سانحات کے حقائق سامنے لانے کے لیے ”ٹروتھ کمیشن” بنانے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ خواتین کے سروں پر گولیاں مارنے سے بڑی بزدلی کوئی نہیں ہو سکتی۔
سانحہ کی سچائی سامنے لائیں یا ایک اور سانحہ کا انتظار کریں۔ایک تنظیم نے کراچی پولیس میں ہزاروں بھرتیاں کروائی ایسی پولیس عوام کے جان ومال نہیں اپنے سیاسی آقائوں کے مفادات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ملک میں کئی خونی حادثات ہوئے کراچی میں 12 مئی کا واقعہ ہوا 8 اپریل کو وکلاء کو زندہ جلایا گیا258 محنت کشوں کو جلایا گیا۔کس واقعہ کے ملزمان گرفتار ہوئے اب بس پر حملہ کر کے خواتین کے سروں پر گولیاں برسائی گئیں خواتین پر ہاتھ اٹھانا ہمارے معاشرے میں ویسے بھی بزدلی تصور کیا جاتا ہے خواتین کو اس طرح نشانہ بنانا مہذب جمہوری معاشرے میں باعث شرم ہے۔
اس حادثے کے قاتلوں کا بھی پتہ نہیں چلے گا اور ہم ایک اور حادثے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان خونی سانحات کے لیے ”ٹروتھ کمیشن ”بنایا جائے۔سیاسی اور ریاستی دبائو سے بالاتر ہو کر سانحہ صفورا کے حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔کون اس بہنے والے خون کا ذمہ دار ہے۔ کس کی غفلت نے یہ جانیں نگل لیں الزام تراشی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ وفاقی ہو یا صوبائی حکومتیں جو بھی قیام امن میں ناکام ہیں انہیں حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے۔ کورکمانڈر کراچی نے جو حقائق بیان کیے ہیں وہ سیاستدانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔سیاسی ناکامی ،بدانتظامی اور خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ حکومت کا ہنی مون گزرچکا ہے عوام کی خدمت نہیں کی جا سکی ہے بڑے منصوبوں کا شور شرابہ ضرور ہے۔
Inflation
عام آدمی کا مسئلہ آٹا،دال،گھی ،چاول ،لوڈ شیڈنگ، بدامنی ،بیروزگاری ہے۔سیاسی پنڈتوں اور برہمنوں نے پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے یہ ملک کے کارکنوں ،بینکوں پر قابض ہیں اور سیاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ محب وطن، تعلیم یافتہ، پر امن اور ترقی پسند اسماعیلی برادری پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کی اقتصادی مضمرات کا جائزہ لیا جائے۔ اسماعیلی برادری علی گڑھ یونیورسٹی کی تعمیرمیں بھرپور تعاون سے آج تک وہ تعلیم صحت اور دیگر سماجی شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں
جبکہ پاکستان کے ان دور افتادہ علاقوں میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں جنھیں کبھی کسی نے توجہ کے قابل نہیں سمجھا۔اس پرامن برادری پر حملہ کرنے والے انسان کو کیا جانور کہلانے کے بھی مستحق نہیں۔ پاکستان میں سماجی خدمات کے علاوہ بڑے پیمانے پر کاروبار کر کے لاکھوں افراد کو روزگار اور اربوں روپے کے محاصل بھی ادا کر رہی ہے۔پرنس کریم آغہ خان کی ذاتی دلچسپی سے تعمیر ہونے والاآغا خان ہسپتال ایسا مثالی ادارہ ہے جو بہت سے لاعلاج مریضوں کیلئے امید کی آخری کرن ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے پچیس ممالک میںڈیڑھ کروڑ اسماعیلی ہیں جو ہر ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔
حکومت اسماعیلی برادری، جماعت خانوںاور اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائے اور انکے خدشات دور کرے ورنہ برین ڈرین اور سرمائے کا فرار بڑھ جائے گا جس سے ملکی معیشت پر بڑے اثرات مرتب ہو نگے جو ملک دشمن دہشت گردوں کا اصل ہدف ہے۔یہی دشمن ملک پاکستان میں افرا تفری کا ذمہ دار ہے جو اب پاک چین اکنامک کاریڈور کے منصوبہ کو ناکام بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ پاکستان موثر سفارتی میم کے زریعے عالمی برادری کے سامنے انھیں بے نقاب کرے۔