کراچی کے مختلف علاقوں میں ہلکی بوندا باندی سے موسم خوشگوار ہوگیا۔ مگر اس خوشگوار موسم نے پان اور گٹگے سے لال سڑکوں کو گیلا کردیا تھا، جس کی وجہ سے جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا یعنی موٹر سائیکل سوار درجنوں کی تعداد میں پھسلنا شروع ہوگئے۔ ان کے پھسلنے کا منظر میں دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں پاس کھڑے دو افراد نے بارش کے موسم پر تبصرہ کرنا شروع کردیا۔ دونوں افراد شکل و صورت سے پڑھے لکھے اور اندرون کراچی کے رہائشی لگتے تھے ، جو کہ بارش پر انتہائی فکرمندانہ تبصرہ کر رہے تھے۔ ایک نے کہا کراچی کے گٹر تو پہلے ہی سے خود ساختہ چشمے بن چکے ہیں مزید رہی سہی کسر آج کی بارش پوری کردے گی۔ بلدیاتی حکومت کے دفاتر میں کئی بار شکایات درجہ کراچکے ہیں مگر تاحال کسی نے بے حال شہریوں سے حال دل نہیں پوچھا۔
دوسرے نے جواباً کہا شاید آپ یہاں رہتے ہیں نہیں ہیں، باتیں تو ایسے معصومانہ کر رہے ہیں، آپ کو نہیں معلوم کراچی کے ابلتے گٹروں اور سیوریج کی ابتر صورتحال کے پس پشت انہیں بلدیاتی امیدواروں کے خفیہ ہاتھ ہیں۔ یہ امیدوار جان بوجھ کر ان میں صفائی کی بجائے گندی کے ڈھیر لگا رہے ہیں تاکہ معمولات زندگی تنگ ہو اور پھر یہ عوام سڑکوں پر نکل کر ان کی صفائی کے لئے احتجاجی طریقہ اختیار کریں۔کیوں کہ سب ہی جان چکے ہیں کہ اب حکومت کو سمجھانے کے لئے احتجاج، دھرنے اور لانگ مارچ کیا جائے تو حکومت ضرور متوجہ ہوتی ہے۔
دوسرے نے بڑی حیرت اور تعجب سے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے کہ بلدیاتی امیدوار خود اپنے ہاتھوں یہ سب کرائیں! تاہم دوسرے شخص نے اس کی حیرت کو بھانپتے ہوئے بڑی تیکھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور کہا یہ سب بلدیاتی فنڈز کی کمی کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ فنڈز ختم ہوچکے ہیں اور اب امیدوار کوئی بھی ترقی کی راہ دیکھنے کی بجائے بلدیاتی الیکشن کروانے کی راہیں دیکھ رہے ہیں۔ ناجانے کب ہوں یہ الیکشن یہی وجہ ہے کہ وہ یہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں تاکہ جلد از جلد الیکشن کرائے جائیں۔ آپ نے دیکھا نے شہر کی مصروف ترین شاہراہوں پر گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، اسٹریٹ لائٹس بھی خراب پڑی ہوئی ہیں۔ سرکاری خرچے پر چلنے والے پارکوں کی شکل و صورت بھی اب کچھ خاص نہیں رہی۔
اس شخص کی باتیں تو کافی اندر کی تھیں مگر ناقابل یقین اور بے اعتبار تھیں۔ خیر بارش کے بعد موسم خوشگوار ہوا اور ساتھ میں موٹرسائیکل سواروں کی تیزی میں بھی خاطر خواہ آہستگی آئی مگر اس کے باوجود کتنے ہی موٹر سائیکل سوار اپنی سواری کی رفتار کو برقرا ر نہ رکھ پائے اور گرتے رہے۔ بلدیاتی الیکشن کب ہوں اور کیوں کر ہوں ؟ ملکی صورتحال ناجانے کہاں جارہی ہے ؟ یہ ساری باتیں ایک عام شہری کے لئے یقینا معنے رکھتی ہیں تاہم اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ ثانوی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہمارے ابتر حالات کی وجہ کیا ہے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے۔
گزشتہ روز علی الصبح میں روڈ کے کنارے ایک ہوٹل پر چائے پینے کے لئے بیٹھا آنے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ایک موٹر سائیکل سوار نے دوسرے کو انتہائی تیزی سے کراس کیا۔ پہلے والے نے ہلکی سے بریک لگائی مگر اس دوران ایک کار سوار نے پیچھے سے کار دے ماری اور وہ گر گیا۔ کار والا بڑی تیزی سے نیچے اترا اور بجائے اس شخص کو اٹھانے کے وہ اپنی کار کی جانب بڑھا اور موٹر سائیکل سے ٹکرانے کی جگہ کا بغور جائزہ لینے لگا۔ تاہم اتنے میں وہ شخص بھی ایک دو افراد کی مدد سے اٹھ کھڑا ہوا۔ جب کار سوار نے اطمنان کرلیا کہ اس کی کار کو کوئی خراش نہیں آئی تو اپنی کار میں بیٹھ کر چلا گیا۔
اس واقعے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہم اب بھی ترقی کر سکتے ہیں؟ جہاں ایک انسان کی قدر بے جان گاڑی سے بھی کم تر ہے۔ ٹھیک ہے بلدیاتی الیکشن کا ہونا نا ہونا ہماری زندگی میں اہمیت رکھتا ہے مگر جو کچھ ہم سے ہوسکتا تھاکیا ہم وہ کر رہے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم بلدیاتی الیکشن کے انتظار میں بیٹھ جائیں اور جب وہ ہوجائیں تو ہم سدھر جائیں گے؟ یا پھر قادری انقلاب ملک میں آجائے یا پھر کپتان آزادی لے آئے تو ہم پرسکون اور اچھی زندگی گزارنے لگیں گے؟ ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ جب تک ہم فرداً فرداً اپنی اصلاح نہیں کریں گے ملک میں کبھی بھی انقلاب نہیں آسکتا۔ کبھی بھی ہم نئے پاکستان کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ اگر شہری حکومت کے فنڈز ملنے کے انتظار میں بیٹھا جائے تو شاید ہمارے گٹر ابلتے رہیں اور ہم کچھ نہ کر سکیں۔ روڈ گندگی کا ڈھیر بن جائیں اور ہم اس پر گزرتے رہیں۔
Change
ایکسیڈنٹ کرنے والے کو انسانیت کی بجائے اپنی کار کی فکر ہوگی تو تبدیلی کبھی بھی نہیں آئے گی۔ فرض کر و ملک میں تبدیلی آجاتی ہے اور سارے کے سارے کرپٹ اور نااہل حکمران ختم ہوجاتے ہیں مگر عوام میں انسانیت کی قدر پیدا نہیں ہوتی تو کیا یہ ملک تبدیلی کے قابل ہوگا؟ کیا آنے والی تبدیلی اپنا اثر دیکھائے گی ؟ کبھی بھی نہیں دیکھائے گی۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فردا فردا یا اجتماعیت میں ایک دوسرے کے دست و گریباں ہونے کی بجائے سب سے پہلے ہم اپنے اندر انسانی محبت پیدا کر کے تبدیلی لائیں، پھر اپنی گلی، محلے میں تبدیلی کا ماحول پیدا کریں تو شہری حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے گی اور صوبائی پھر وفاقی حکومت اپنی حیثیت کو سمجھے گی۔ اللہ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین