دوحہ (اصل میڈیا ڈیسک) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے کے روز ہونے والی میٹنگ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد دونوں فریقوں کے مابین پہلی براہ راست میٹنگ ہے۔
حالانکہ اگست کے وسط میں افغانستان کے مکمل کنٹرول کے بعد سے دونوں فریق ایک دوسرے کے رابطے میں ہیں تاہم امریکی اور طالبان نمائندوں کی یہ پہلی براہ راست سفارتی بات چیت ہوگی۔
اطلاعات کے مطابق امریکی وفد میں محکمہ خارجہ کے علاوہ یو ایس ایڈ اور انٹلی جنس کے افسران بھی شامل ہوں گے۔ افغانستان کے کارگزار وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کا وفد دوحہ پہنچ چکا ہے۔ اس وفد میں جاسوسی کے شعبے کے سربراہ ملا عبدالحق واثق، اطلاعات اور ثقافت کے وزیر ملا خیراللہ خیرخواہ اور سینیئر رہنما شیخ شہاب الدین دلاور شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا،” ہم طالبان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ تمام افغان باشندوں، بشمول خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کریں اور وسیع حمایت کے ساتھ ایک شمولیتی حکومت تشکیل دیں۔”
انہوں نے مزید کہا،” جیسا کہ ہم دیکھ رہے کہ اس وقت افغانستان کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور ممکنہ انسانی بحران کا خدشہ ہے، ہم طالبان پر یہ بھی دباؤ ڈالیں گے کہ وہ انسانی امدادی ایجنسیوں کو ان تمام علاقوں میں رسائی کی آزادی دیں جہاں امداد کی ضرورت ہے۔”
میٹنگ کے دوران امریکی شہریوں اور افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند افغان باشندوں کو محفوظ راہداری فراہم کرنے کے معاملے پربھی گفتگو ہوگی۔
اس کے علاوہ دونوں فریق دہشت گردی کی روک تھام اور افغانستان میں القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو ایک بار پھر سرگرم ہونے سے روکنے کے طریقہ کار پر بھی بات چیت کرسکتے ہیں۔
طالبان کے ایک اہم رہنما نے کہا ہے کہ ”اسلامی امارات‘‘ شمولیتی حکومت کے لیے تیار ہے لیکن ترجیحی حکومت کے لیے تیار نہیں۔”
ٹیلی ویژن چینل الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویومیں اقوام متحدہ کے لیے طالبان کے نامزد سفیر سہیل شاہین نے کہا کہ کابینہ میں نسلی اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور خواتین کو بھی بعد میں شامل کیا جائے گا۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا،”بین الاقوامی برادری کو افغان عوام کی خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم اسلامی امارات کو شمولیتی بنانے کے لیے تیار ہیں لیکن اسے ترجیحی نہیں بنایا جائے گا۔”
ذرائع کے مطابق امریکا ” شمولیتی حکومت ” میں افغانستان کے بعض ”سابق رہنماؤں” کو شامل کرانا چاہتا ہے لیکن طالبان نے اس تجویز پر سردمہری ظاہر کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے زور دے کر کہا کہ اس میٹنگ کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ واشنگٹن فی الحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کررہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا،” یہ میٹنگ (طالبان کو) تسلیم کرنے یا انہیں قانونی حیثیت دینے کے لیے نہیں ہے۔ ہمارا واضح موقف ہے کہ طالبان کو صرف اسی صورت میں اپنی قانونی حیثیت منوا سکیں گے جب وہ اپنے عمل سے اس کے اہل ہونے کا ثبوت دیں۔ انہیں اس کے لیے پائیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔”
قبل ازیں اس ہفتے کے اوائل میں برطانوی حکام نے بھی کابل میں طالبان کے ساتھ پہلی میٹنگ کی تھی۔ دونوں فریقوں کے درمیان اس بات چیت کے دوران انسانی بحران میں اضافے، سکیورٹی اور دہشت گردی سے کی صورتحال نیز خواتین کے حقوق جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز مرکوز رکھی گئی تھی۔
اگست کے وسط میں افغانستان پرطالبان کے قبضے کے بعد سے وہ ملک میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم طالبان قیادت کو داعش کے بڑھتے ہوئے خطرات کابھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جمعے کے روز شمالی افغانستان کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے میں کم از کم 100افراد ہلاک ہوئے تھے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
افغانستان اس وقت اقتصادی اور انسانی بحران سے بھی دوچار ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران غربت اور بھوک کی صورت حال مزید ابتر ہوئی ہے۔
ملک کو اس وقت بین الاقوامی امداد کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے اثاثے امریکی بینکوں میں منجمد ہیں اور بین الاقوامی تنظیموں نے بھی امداد معطل کردی ہے۔
اقو ام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریباً پانچ لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے اور اگر اقتصادی اور سماجی خدمات کو فوراً بحال نہ کیا گیا تو اس تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوگا۔