آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس، اسحاق ڈار کے تمام اثاثے منجمد

Ishaq Dar

Ishaq Dar

اسلام آباد (جیوڈیسک) اثاثہ جات ریفرنس کیس میں اسحاق ڈار ساتویں بار احتساب عدالت میں پیش ہوئے، بیرسٹرظفر اللہ، طارق فضل، رانا افضل، پارلیمانی سیکرٹری خزانہ بھی احتساب عدالت پہنچے، جج محمد بشیر کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔

سماعت شروع ہونے پر نیب کی جانب سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے تمام اثاثے منجمد کرنے کی رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرائی گئی، جس میں بتایا گیا کہ چیئرمین نیب کی ہدایت پر اسحاق ڈار کے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے منجمد کئے گئے ہیں۔ عدالت اثاثے منجمد کرنے کی رپورٹ پر سماعت کرے گی۔

دوران سماعت نیب کے گواہ نجی بینک افسر عبدالرحمان گوندل کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ گواہ نے بتایا کہ وہ پارلیمنٹ میں واقع نجی بینک کا برانچ منیجر ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اسحاق ڈار کے نام پر کھولا گیا، نیب نے اسے 16 اگست کو دستاویزات کے ساتھ طلب کیا جس پر وہ 17 اگست کو نیب کے سامنے پیش ہوا۔

گواہ نے بتایا کہ نیب کے تفتیشی افسر کو بینک ریکارڈ فراہم کیا۔ نیب نے جو ریکارڈ طلب کیا تھا وہ جمع کرا دیا۔ 25 مارچ 2005 سے 16 اگست 2017 تک کی سٹیٹمنٹ نیب کو دیں۔ عدالت میں بینک اکاؤنٹس کھولنے اور اے ٹی ایم درخواست فارم بھی پیش کئے گئے، بینک اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی گئیں جسے عدالت نے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔

وکیل صفائی خواجہ حارث نے گواہ عبدالرحمان گوندل پر جرح شروع کی تو جج احتساب عدالت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ گزشتہ سماعت پر نہیں آئے تھے، سنا تھا کہ کہیں سفر میں ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ان کی غیر حاضری پر شور شرابہ کیا گیا، کسی بھی شخص کو کوئی ایمرجنسی یا حادثہ ہوسکتا تھا۔ خواجہ حارث کے سوال کا جواب دیتے ہوئےگواہ نے بتایا کہ وہ تصدیق شدہ دستاویزات لیکر نیب کے پاس گئے تھے، اصل دستاویزات دفتر میں رہ گئی تھیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ نے ایس ایس کارڈ کو کورنگ لیٹر سے کیوں کاٹا۔ گواہ نے بتایا کہ جب وہ تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا تب اصل ایس ایس کارڈ اس کے پاس موجود نہیں تھا اسی لئے اسے فہرست سے کاٹا۔ خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ پھر اصل کارڈ لے کر تفتیشی افسر کے باعث دوبارہ گئے، گواہ نے نفی میں جواب دیا اور بتایا کہ چونکہ وہ بیان دینے اسلام آباد سے لاہور گیا تھا اس لئے اصل کارڈ لیکر دوبارہ تفتیشی افسر کے پاس نہیں گیا۔

تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ اصل ریکارڈ عدالت آتے ہوئے لیتے آئیں، تفتیشی افسر کو بھی اصل کارڈ نہیں دکھایا۔ اس پر خواجہ حارث اور نیب پراسیکیورٹر عمران شفیق میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ انھیں نیب پراسیکیوٹر پر افسوس ہے، سمجھ نہیں آتی وہ یہ کیسے پراسیکیوٹر ہیں، گواہ ماہر ہے اور سمجھدار بھی۔ نیب پراسیکوٹر کیوں بار بار مداخلت کر رہے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسے ذاتی حملے نہ کریں۔ سینئیر وکیل سے ایسے حملوں کی توقع نہیں کرتا۔ اس پر جج محمد بشیر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب آپ دونوں نے لڑ لیا ہو تو آگے بڑھیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات گواہ خود پڑھ رہا ہے، انھوں نے کوئی مداخلت نہیں کی۔

گواہ سے سوال کرنا ان کا حق ہے، نیب پراسیکیوٹر گواہ کو کچھ نہ بتائیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ بینک ریکارڈ میں ٹرانسفرز اور کلیئرنگ انٹریز کو ایک ساتھ لکھا گیا ہے۔ دو الگ الگ چیزوں کو ایک ہی دکھانا جعل سازی نہیں تو اور کیا ہے۔ انھوں نے گواہ سے سوال کیا کہ کیا تمام بینک ٹرانزکشنز کی رسیدیں عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔

گواہ نے کہا کہ ساری بینک رسیدیں دو بوریوں پر مشتمل ہوں گی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ چاہے دو بارہاں ہوں آپ عدالت میں لیکر آئیں۔ اس پر عدالت نے گواہ سے اسحاق ڈار کے اکاؤنٹس کی ساری ٹرانزکشن کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا۔

عدالت نے ہدایت کی کہ بتایا جائے اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی کی وجوہات کیا تھیں؟ عدالت نے اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت میں پندرہ منٹ کا وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد نیب کے اگلے گواہ مسعود غنی کا بیان ریکارڈ ہوگا جس کے بعد خواجہ حارث گواہ پر جرح کریں گے۔

واضح رہے نیب ریفرنس پر اسحاق ڈار کے خلاف 4 اکتوبر کو استغاثہ کے پہلے، 12 اکتوبر کو دوسرے جبکہ 16 اکتوبر کو تیسرے گواہ کا بیان قلمبند کیا گیا۔عدالت نے 27 ستمبر کو اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام کی فرد جرم عائد کی تھی۔