سب مسلمان جانتے ہیں کہ جیسے جیسے رمضان کا مہینہ اختتام پذیر ہوتا ہے، دنیا بھر کے مسلمان عید الفطر کی خوشیاں منانے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ یہ تہوار روزوں کے پورے ایک ماہ مکمل ہونے پریکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ اسلامی کلینڈر کے لحاظ سے شوال کا مہینہ دسواں مہینہ ہے۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے جو عود سے مشتق ہے۔ عود کا مطلب کسی چیز کا بار بار آنا ہے۔ چونکہ عید ہرسال آتی ہے، اس لئے اس کانام عید الفطر رکھا گیا۔ اسلام سے پہلے اہل مدینہ پورے سال میں مختلف انداز میں کئی تہوار منایا کرتے تھے جس میں وہ اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ وہ ایک دوسرے کی دعوت کرتے۔ انواع واقسام کے کھانے پکائے جاتے، جگہ جگہ میلوں کا اہتمام کیا جاتا اور رنگین محفلیں سجائی جاتی تھیں۔
لیکن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ کے ان تہواروں کے بارے میں آپ کو واقفیت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے سال میں ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں جس میں وہ اپنی خوشی کا اظہار کیا کریں۔ ایک عید الفطر ہے اور دوسری عید الاضحی ہے۔ عید کا دن شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے۔ اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے نئے ملبوسات زیب تن کرکے عید گاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور وہاں وہ شکرانہ کے طور پر دورکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات کے ذریعہ وہ اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرتے ہیںتاکہ انہیں بھی صحیح معنوں میں عید کی خوشیاں میسر ہو سکیں۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دو مسلمان بھائی آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔
پھر کھاو اور کھلاو کا دور شروع ہوتا ہے۔ انواع واقسام کی ڈشیں پیش کی جاتی ہیں اور خصوصی طور پر سوئیوں کا اہتمام ہر ایک گھرانہ میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ تر اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں کی اور دیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ تاہم عید کا مقصد صرف عمدہ اور نیا لباس پہن لینا یا لذیذ کھانا کھا لینا نہیں ہے، بلکہ عید کا صحیح مقصد تو یہ ہے کہ کثرت سے اطاعت وعبادت کر کے اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جائے اور اپنے گناہوں سے توبہ کی جائے۔ بتایاجاتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو 34 ارب روپے سے شروع کیا گیا اور جس کا بجٹ 70 ارب روپے تک پہنچا گیا تھا۔ 2008 ـ09 میں 35 لاکھ خاندان کی امداد کرنے والا یہ پروگرام 2012ـ13 میں 55 لاکھ خاندان یعنی پاکستان کی کل آبادی کے 18 فیصد اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے 40 فیصدلوگوں کی امداد کا دعویدار رہا، اس پروگرام سے 4 کروڑ افراد کو فاہدہ پہنچا۔
Benazir Income Support
اس پروگرام کے تحت ہررجسٹرڈ خاندان کو 1000 روپے ماہانہ کے حساب سے سال میں چار مرتبہ مالی امداد دی جاتی رہی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سابق چیئر پرسن محترمہ فرزانہ راجہ کا کہنا تھا کہ “بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریب خاندانوں کو خودکفیل بنانے کیلئے اپنی کارکردگی اور سٹریٹجی مزید بہتر بنائے گا۔ اس پروگرام نے سماجی شعبہ میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے جس نے انتہائی غریب خاندانوں تک رسائی کرکے ان کے گزر بسر میں مدددی۔اس پروگرام کے تحت شروع کئے گئے مختلف منصوبوں کی بدولت نہ صرف ملک سے غربت کے خاتمہ میں مدد مل رہی ہے بلکہ غریب اور بے سہارا افراد تعلیم، صحت اور روزگار سے بنیادی مسائل بھی حل ہورہے ہیں”۔محترمہ بے نظیر بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کیساتھ حکومت میں آئی تھیں۔ انکے پہلے دورِحکومت میں”پیپلز پروگرام” چلا جبکہ پیپلز پارٹی کے چوتھی حکومت کے اس دور میں ان کی جماعت کا “بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام” چل رہا ہے۔
اس پروگرام کو شروع کرتے وقت چند شرائط بھی رکھی گئیں جن کے مطابق اس پروگرام سے غریب اور نادار افراد کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی مستفید ہو سکیں گے جن کی ماہانہ تنخواہ چھ ہزار روپے تک ہو گی جبکہ جو لوگ پنشن لے رہے ہیں یا بیت المال سے مستفید ہو رہے ہیں وہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ چند ماہ پہلے جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سابقہ دور حکومت میں شروع کئے جانے والے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے اور اس میں وسیع پیمانے پر ہونے والی کرپشن کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کرلیا کہ اس پروگرام میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے نیب اور ایف آئی اے سے تحقیقات کرائی جائیں گی تاکہ غریبوں کے نام پر بعض اہم سیاسی شخصیات اور اس پروگرام کے ذمہ داران کی جیبوں میں جانے والی رقوم کی ریکوری کی جا سکے۔ حکومت اس پروگرام کا نام پاکستان انکم سپورٹ پروگرام رکھ کر اسے جاری رکھے گی۔
گزشتہ ماہ جون میںقومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں معاشی استحکام کے لئے کسی بھی قسم کی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی، گزشتہ 5سال میں جی ڈی پی کی شرح 3 فیصد رہی، افراط زر کی شرح 13 فیصد رہی، عالمی مالیاتی اداروں سے خطیر قرض لینے کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ 1481 ارب روپے کی ٹیرف سبسڈی ادا کرنے کے باوجود 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ہے، بجٹ خسارہ 7 فیصد رہا، قرضوں کا حجم 255 فیصد بڑھا۔ معیشت کی زبوں حالی کے صحیح ادراک نے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ جو بجٹ آج پیش کیا جارہا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے منشور کا آئینہ دار ہے۔ وفاقی بجٹ کا حجم 35 کھرب 91 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وفاق کی جانب سے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل سے 1502 ارب روپے دیئے جائیں گے۔
موجودہ بجٹ میں مالیاتی خسارے کا تخمینہ 2024 ارب روپے ہے تاہم اگلے مالی سال میں خسارہ 1651 روپے رہے گا جو کہ شرح نمو کے 6.3 فیصد ہے۔ توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کو 60 دن کی مدت میں ختم کیاجائے گا تاکہ ملک میں لوڈ شیڈنگ میں کمی شروع ہو جائے۔ نندی پور منصوبے کو نظر انداز کیا گیا اس کی ابتدائی قیمت 23 ارب روپے تھی، اب بڑھ کر 57 ارب روپے ہو گئی ہے، کاغذی کارروائی کے بعد یہ منصوبہ آئندہ 18 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مد میں 800 ملین ڈالر حاصل کئے جائیں گے، ترقیاتی بجٹ میں مجموعی طور پر 1155 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں 540 ارب روپے وفاق خرچ کرے گا۔ حکومت نے انکم سپورٹ فنڈ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مستحق خاندانوں کو ایک ہزار روپے کی ماہانہ امداد سے بڑھا کر 1200 روپے کر دی گئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے انکم سپورٹ پروگرام کیلئے نہ تو کوئی وزیر مقرر کیا ہے نہ ہی تین ماہ سے ”انکم سپورٹ پروگرام” کے ملازمین تنخواہیں ملی ہیں۔ اس وقت ملازمین کی تعدار ہزاروں میں ہے اور عید بھی سر پر ہے۔ اور سیاسی مسائل کی بناء پر عیدکی خوشیوں سے محروم ہیں۔ مبصرین کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کو ”انکم سپورٹ پروگرام” کے ملازمین کی تنخواہیں بھروقت ادا کر کا حکم دینا چاہیے تاکہ انہیں بھی صحیح معنوں میں عید کی خوشیاں میسر ہو سکیں۔