اسلام آباد (جیوڈیسک) اپوزیشن کے بھرپور احتجاج اور دو بار واک آؤٹ کے باوجود حکومت نےانکم ٹیکس تر میمی بل 2016 اور پی آئی اے کو کارپوریشن سے کمپنی میں بدلنے کے بل کثرت رائے سے منظور کرا لیے۔
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی دُہائیاں اور منت سماجت بھی کام نہ آئی،’’میاں صاحب کے اٹک قلعہ میں قید کے دوران بہائے گئے آنسوں کی قسم،اس بل کو نہ لائیں، خواجہ آصف کے 3 ماہ لاک اپ میں گزارے گئے دنوں کی قسم،اس بل کو نہ لائیں، آپ کو بھٹو صاحب کی پھانسی،بی بی کی شہادت، وزیراعظم ہاؤس میں لگائی گئی ہتھکڑی کی قسم، یہ بل نہ لائیں‘‘۔یہ دُہائیاں دیں قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ نےانکم ٹیکس تر میمی بل 2016 کو قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیے جانے پر۔
حکومت نے ایک نہ سنی ، اور پھر اپوزیشن کا احتجاج شروع ہو گیا۔ شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری کا ڈپٹی اسپیکر سے سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہو گیا۔ ڈپٹی اسپیکر نےشیریں مزاری کو یہ بھی کہہ ڈالا کہ زبان سنبھال کے بات کریں۔اپوزیشن ارکان بولے،یہ کالا دھن سفید کرنے کا بل ہے ،حکومت نے اسمگلرز ، چوروں اور پارلیمنٹیرینز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امتیازی بل کو مسترد کرتے ہیں، حکومت بدمست ہاتھی نہ بنے،ایوب خان کے دور سے 9ایمنسٹی بل آچکے،سب ناکام ہوئے،یہ بل بھی ناکام ہوگا۔حکومت پر پھر بھی اثر نہ ہواتواپوزیشن نےبل کی کاپیاں پھاڑ کرہوا میں اچھالیں اور ایوان سے واک آؤٹ کر دیا ۔
اسی دوران حکومت نے کثرت رائے سے بل کی شق وار منظوری حاصل کر لی، شفقت محمود کی کورم کی نشاندہی کی حکمت عملی بھی ناکام ہوگئی۔
اپوزیشن واک آؤٹ ختم کرکےایوان میں آئی تو حکومت بجلی چوری کے خلاف سزاؤں کےضابطہ فوجداری کےترمیمی بل سمیت مزید 5 بلزمنظور کراچکی تھی۔
پھراچانک پی آئی اے کو کارپوریشن سے لمیٹیڈ کمپنی بنانے کا بل بھی ایجنڈے سے ہٹ کرمنظوری کے لیے پیش کردیا، اپوزیشن نے پھرخوب ہنگامہ کیا، بلز کی کاپیاں پھاڑ دیں اورایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔حکومت نے پھر موقع غنیمت جانا اور جلدی جلدی اس بل کی بھی شق وار منظوری لے لی۔اس کے بعد قومی اسمبلی کااجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔