تحریر : محمد اشفاق راجا پاکستان کو درپیش مسائل کی فہرست کافی طویل ہے یہاں کے رہنے والے لاتعداد مسائل کا شکار ہیں اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ان مسائل میں کمی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے یہاں کی حکومتیں ،ادارے،سیاسی جماعتیں اور رہنما ہر کوئی اس فکر میں ہے کہ کس طرح ان مسائل پر قابو پایا جاے؟یہاں پر ماہرین اور مفکرین بھی اس سوچ بچار میں مصروف ہیں کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا طریقے وضع کیے جائیں ؟ کوئی بھی مرض اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک اس کی جڑ کو نہ ختم کیا جائے ا?ج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کی بنیاد کو تلاش کیا جاے تاکہ اس بنیادی مسلے پر قابو پا کر دیگر مسائل کو بھی حل کیا جاسکے۔پاکستان کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے مگر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے یہ وسائل کم پڑ جاتے ہیں۔درحقیقت پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہی تمام مسائل کی جڑ ہے ،ہماری حکومت ،اداروں اور ماہرین کو اس کی طرف پوری توجہ دینی ہو گی۔ تازہ ترین ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا کی کل آبادی سات ارب چالیس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اگر ہمارے ملک کی آبادی میں اضافہ اسی رفتار سے رہا ،جس رفتار سے جاری ہے تو 2050تک پاکستان کی آبادی 28کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہمارا ملک 2050میں زیادہ آبادی والے ممالک کی صف میں پانچویں نمبر پر آجاے گا۔پاکستان کا کل رقبہ 796096مربع کلو میٹر ہے جبکہ یہاں کا کل قابل کاشت رقبہ 190319مربع کلو میٹر ہے اور یہ کل رقبے کا 24فیصد ہے۔موجودہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک مربع کلومیٹر رقبے پر 204افراد رہ رہے ہیں اور قابل کاشت زمین سے 834افراد فی مربع کلو میٹر استفادہ کر رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ایک کلو میٹر قابل کاشت زمین 200سے 300افراد کی غذائی ضرورت پورا کر سکتی ہے جبکہ ہمارے ہاں 800سے زائد افراد اس پر انحصار کر رہے ہیں اگرچہ ہم نے زراعت کے شعبے میں جدید سائنسی طریقے اپنا کر فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا ہے مگر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے اس ضافے کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ 1981کی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان میںشرح خواندگی 26.17فیصد تھی 1998کی مردم شماری کے مطابق یہ شرح 43.92فیصد تھی۔ہم خواندہ اسے تصور کرتے ہیں جو صرف اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہو، دل کے بہلانے کے لیے یہ خیال اچھا ضرور ہے مگر ہم حقیقی تعلیم سے کوسوں دور ہیں، ایسی تعلیم جو معاشرے کے لیے سود مند ہو وہ ریاست فراہم کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم اس میدان میں پیچھے کی طرف ہی جائیں گے۔
Education
تعلیم کے شعبے میں ریاست کی ترقی کی رفتار آبادی میں اضافے کی رفتار سے کم ہے لہٰذا یہ شعبہ بھی مسائل زدہ ہے او رمسائل کا ہی شکار رہے گا۔صحت کا شعبہ بھی بڑھتی ہوئی آبادی کا شکار ہے۔یہاں کے لوگوں کو صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ کمی ڈاکٹرز کی درپیش ہے۔ان دنوں ینگ ڈاکٹر ویسے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق ایک ڈاکٹر 25مریض روزانہ دیکھ سکتا ہے،اس ضمن میں ہمارے ہاں حالات بہت گمبھیر ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں کی تعمیر ،ادویات کی فراہمی اور دیگر سہولیات فراہمی ہمیشہ مشکلات کا ہی شکار ہیں۔ ہمارے ہاں روزبروز مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم شروع دن سے ہی آبادی کے مسئلے کی طرف توجہ دیتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔
ہماری ابادی میں اضافے کی رفتار ترقی کی رفتار سے کم ہونی چاہیے، تب ہی ریاست اپنے ہر شہری کو تمام تر سہولتیں فراہم کر سکتی ہے، جوں جوں آبادی بڑھتی رہی مسائل اور خلفشار میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ہم آبادی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب نہ دے سکے۔
ہمارے ہاں تو مردم شمار ی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔اعلیٰ عدلیہ اس طرف توجہ دلاتی رہتی ہے لیکن صاحبانِ اقتدار ،اس معاملے سے گریز برتتے رہتے ہیں۔بظاہر ہماری حکومتیں اور رہنماء ملک کو درپیش مسائل کے لیے بڑے حکیمانہ حل تلاش کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں مگر حقیقی مسئلے کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے سے وہ کوسوں دور ہیں۔ہم اس بنیادی مسئلے پر قابو پا کرہی ترقی کی راہ پر اپنا سفر پھر سے شروع کر سکتے ہیں۔