پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز 26 نومبر 1964 کو لاہور سے ہوا بتداء میں نشریات کا دورانیہ انتہائی محدود ہوا کرتا تھا۔ یعنی صر ف تین گھنٹے روزانہ اور ہفتہ میں ایک دن یعنی پیر کو ٹی وی کی نشریات نہیں ہوتیں تھیں ،مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نشریات کا دورانیہ بڑھتا چلا گیا اور اب یہ حال ہے کہ دن رات صبح شام جب دل کرے ٹیلی ویژن کی نشریات دیکھی جاسکتی ہیں ا ورپھر مختلف نجی اور سرکاری چینلز کی ایک بھرمار ہے جو مختلف طرح کے راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔
ابتدا ء میںڈرامے اور ٹاک شوز انتہائی معیا ری اور دلچسپ ہوا کرتے تھے جو نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں ان میں نیلام گھر ، اسٹوڈیو ڈھائی ، معین اختر شو ،عمر شریف شو ،جنگل، وارث، دھوپ کنارے، حویلی، گیسٹ ہاوس، ففٹی ففٹی، اندھیرا اجالا، عینک والا جن ،سونا چاندی، خواجہ اینڈ سنز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ ڈرامے اور ٹاک شوز تھے جن کا انتظار ناظرین کو بے چینی سے ہوا کرتا تھا۔
پھر اس دور کے ان ڈراموں اور ٹاک شوز میں وہ مار دھاڑ اور آپا دھاپی کا منظر کم ہی نظر آتا تھا جو آج کے ڈراموں اور ٹاک شوز میں نظر آتا ہے اور ساتھ ہی وہ معیار بھی اب پہلے کی طرح سے نظر نہیں آتا۔
صبح کی نشریات کی ابتداء ہوئی تو ناظرین نے اس کے اعلی معیار اور انداز کو بے حد سراہا ۔ اس سلسلہ میں سب سے معتبر نام محترم جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ہے۔ جن کی علم دوستی اور اردو زبان سے ایک خاص لگاو نے صبح کی نشریات کے معیار اور اس کی دلچسپی کو چار چاند لگا دیئے ۔مستنصر صاحب کی زو معانی اور دلچسپ گفتگو کا انداز ناظرین کو بے حد بھایا ۔فلبدیہہ اور موثربات چیت کا انداز بچوں بوڑھوں مردوںاور خواتین میں مقبولیت عام کی سند حاصل کرتا چلا گیا ۔ اسی طرح قراة العین عینی صاحبہ نے بھی اپنی ذمہ داری خوب اور احسن رنگ میں پوری کی۔
مگر اب تو یہ حال ہے کہ درجنوں ٹی وی چینل روزانہ صبح سویرے اتنی ہی تعداد مارننگ شوز پیش کرتے ہیں جس میں معیار کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی فقدان نظر تا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک بے ہنگم سا شور ہے جو صبح سویرے شروع ہوجاتا ہے ، کیا دیکھانا چاہیے اور کیا نہیں؟ معاشرے پر اس کا کیا اثر ہوگا ؟؟اس بات سے ماورا ہوکر پروگرام بنائے اور دیکھائے جاتے ہیں۔
خواتین اور مرد اینکرز مہذب انداز میں گفتگو کرنے کی بجائے چیختے چلاتے اودھم مچاتے ادھر ادھر ناچتے نظر آتے ہیں تقریبا تمام ہی فیشن شوز گلیمر میک اپ سے بھر پور امارت اور دکھاوا اشتہاربازی کی دوڑ میں اور پروگرام کو دلچسپ بنانے کے چکر میں ہر طرح کی اخلاقیات اور معاشرتی روایات کو بالائے طاق رکھتے چلے جارہے ہیں۔
عوام الناس کو جنوں کے چکر میں الجھایا جاتا ہے ایسے ایسے جھوٹے ڈرامے بنائے جاتے ہیں کہ معصوم اور ان پڑھ عوام ان پر یقین کئے بنا رہ نہیں سکتی اور ستم بالائے ستم یہ کہ جب ایک چینل پر ایسے جھوٹے اور بے بنیاد پروگرام کی ریٹینگ بڑھتی ہے تو دوسرے چینل بھی اس دوڑ میں شریک ہو جاتے ہیں اور پھر جنوں بھوتوں پر ایسے ایسے ڈرامائی پروگرام تشکیل پاتے ہیں کہ الامان الحفیظ ۔ ناسمجھ اور کم عقل عوام ان گورکھ دھندوں کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟ اس لیئے وہ آنکھیں بند کرکے ان پر اس طرح یقین کر بیٹھتی ہے کہ نعوذ اباللہ اللہ تعالی پر بھی ایمان کمزور ہونے لگتا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ معصوم عوام اس طرح کے پروگرام دیکھ دیکھ کر اب جنوں سے زیادہ ڈرنے لگی ہے۔ اور یوں سچ کی بجائے جھوٹ کا خوب پرچار کیا جاتا ہے۔
جنوں پر کیئے گئے پروگراموں کا پول تو ایک ٹی وی چینل نے خوب کھولا جب پہلے سے تیار کیئے گئے پروگرام کی ریکارڈنگ دیکھا کر بتایا گیا کہ جنوں پر پروگرام کیسے دھوکہ دہی سے تیار کیئے جاتے ہیں ۔افسوس کہ سہیل احمد اور جنید سلیم کے اس پروگرام سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ۔اور اس کے بعد بھی جادو ٹونے جنوں اور بھوتوں پرپروگراموں کا سلسلہ جاری رہا۔
شاید تمام ٹی وی چینل کے ارباب اختیار یہ جانتے ہیں کہ گھریلو خواتین کو کس طرح پاگل اوربیوقوف بنایا جاسکتا ہے ، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس قسم کے چھوٹے اور من گھڑت پروگرام سے ان کے چینل کی ریٹنگ کس طرح نمبر ایک تک آسکتی ہے ۔ ایسے پروگراموں کے کیا منفی نتائج ہوں گے اس سے بے خبر ہوکر یہ سب بہت ڈھٹائی سے کیا جارہا ہے۔
Sanam Baloch
اس سلسلے میں صنم بلوچ نے تو حد ہی کردی اپنے ایک پروگرام میں تمام بہروپیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان پر پروگرام کیا ۔ پامسٹ ،عامل ، ذائچہ نکالنے والے ،فال نکالنے والے سب کو اپنے ایک پروگرام میں بلایا گیا ۔۔ بظاہر تو یہ شو ان کے حق میں نہیں لگ رہا تھا ۔ مگر حقیقت میں اس پروگرام کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ سب کو یقین بھی آجائے ۔بالکل اسی طرح جیسے سگریٹ کے اشتہار کے ساتھ ایک چھوٹی سی وارننگ بھی لگا دی جاتی ہے کہ سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے۔
صبح کی نشریات کا ایک اور قابل مذمت پہلو شادی بیاہ کے نام پر وہ رسومات ہیں جو باقاعدگی سے دکھائی جارہی ہیں ۔اسلام نے تو ہمیشہ سادگی پر زور دیا ہے تو پھر شادی بیاہ کی اس قدر رسومات کہاں سے تفریح کے نام پر ہمارے معاشرے میں داخل کی جارہی ہیں ۔ اس بات میں کوئی بھی دو رائے نہیں ہیں کہ شادی بیاہ کی تمام رسومات ہندوں مذہب سے لی گئی ہیں ۔حیرت ہے ہندووں سے تو نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے مگر ان کی رسومات کو قبول کر لیا جاتا ہے ۔اس حقیقت کے باوجود ندا یاسر ،صنم بلوچ شائستہ واحدی (جو کبھی شائستہ اور شستہ اردو بولا کرتی تھی اب وہ بھی اس ہنگامہ آرائی کی نظر ہو چکی ہیں) ان سب نے شادی بیاہ کی تمام رسومات کو اس طرح سے اپنے پروگرام میں پیش کیا کہ جیسے یہ پاکستان کے کلچر کا حصہ ہیں ۔ایسا دھوم دھڑکا شور شرابہ اور رسومات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا کہ الامان الحفیظ۔
صبح کی نشریات کرنے والی تمام چینل کی انتظامیہ یہ بھول جاتی ہے کہ پاکستان کا ایک متوسط اور مڈل کلاس طبقہ ہی ان نشریات کو زیادہ دیکھتا ہے ایسے ہوش ربا پروگرام کو دیکھ کراس طبقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔ پھر عالمی دن خاص طور پر ویلنٹائین ڈے کو خوب دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور اس لغو رسم کو عام کرنے میں صبح کی نشریات کی تمام میزبان اپنا بھرپور کردار ادا کرتیں ہیں اور اس موقع پر ایسے ایسے پروگرام پیش کیئے جاتے ہیں کہ عشق و محبت کے نام پر تمام حدوں کو پار کر دیا جاتا ہے ایسا ہی ایک پروگرام کرنے پر ایک اینکر کو ٹی وی چینل سے ہٹا دیا گیا ،اس نے پارکوں میں جاکر چوری چھپے ملنے والے جوڑوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا فریضہ ادا کیا ، حیرت ہے کہ پہلے تو ویلنٹائین ڈے کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی اور پھر اس قسم کا پروگرام کیا گیا۔
مارننگ شوز سے معاشرے کو تو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ۔ البتہ اس سے صبح کی نشریات پیش کرنے والی میزبان کو خوب شہرت مل جاتی ہے جدید طرز کے ہزاروں کے ملبوسات اور میک اپ لاکھوں کا سجایا ہوا سٹوڈیو ۔ اور اس پرسادگی کی ترغیب دیتی یہ میزبان عجیب مضحکہ خیز صورتحال پیش کر رہی ہوتی ہیں۔
اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا اور اب تو ہر میز بان ایک مکمل ڈرامہ کوئین بھی ہوتی ہے کب ڈانس کرنا ہے کب ہنسنا اور رونا ہے اور کب اپنے غصیلے جزبات کا اظہار کرنا ہے یہ سب ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
الغرض یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مارننگ شوز کم اور عذاب صبح زیادہ دکھائی دیتے ہیں ۔جن کو برداشت کرنا اب ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے ۔اس لئے کہ اب تقریبا تمام ہی مارننگ شوز معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی بجائے منفی رحجانات کو زیادہ پروان چڑھا رہے ہیں ۔مارننگ شوز کا سب سے پسندیدہ موضوع شادی بیاہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اب معاشرے کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں اور بس ایک یہی مسئلہ باقی رہ گیا ہے ۔ اور پھر تقریبا ہر شو میں انعامات کی بے تکی بھر ماراور عجیب و غریب حرکتوں پر انعامات رکھے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں عامر لیاقت شو سب پر بازی لے گیا ہے ۔جو جس قدر بے ڈھنگی اور فضول حرکتیں کر سکتا ہے وہی انعام کا حقدار ٹہرتا ہے۔ یعنی اب علم کا معیار یہ ہے کہ آپ کو معلومات پر دسترس کی ضرورت نہیں بلکہ جانووروں کی طرح مختلف حرکات و سکنات پر مہارت کی ضرورت ہے ۔جس معاشرے اور قوم کا یہ معیار ہوجائے وہ کیسے علم اور معرفت کے میدان میں ترقی کر سکتی ہے۔