تحریر : ملک سلمان پنجابی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”جس پِند نئیں جانا اوہدا راہ کی پچھنا”جی ہاں بالکل جب ہم نے محبت کی آڑ میں فحاشی کا دن”ویلنٹائن ڈے”منانا ہی نہیں تو پھر اس کی تائید یا مخالفت کرکے اپنا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ اس دفعہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ”ویلنٹائن ڈے”کے حوالے سے کچھ بھی نہیں لکھنا، اس دن کو ایسے فراموش کر دینا ہے جیسے 14 فروری کو کو ئی تہوار ہی نہ ہو،بدنام ہوئے تو کیا نام نہیں ہوگا کے مصداق کسی بھی کام کا زبان زدِ عام ہونا چاہے وہ اچھے الفاظ میں ہویا بر ے اس کی تشہیر کا باعث بنتا ہے۔
آج بچہ بوڑھا، مردوزن ہر کسی کی پاس ایک ہی موزوع بحث ہے اور وہ ہے ”ویلنٹائن ڈے۔ ہمارے تجزیہ کار لکھاری حضرات کی اکثریت اس تہوار کی مخالفت میں اپنی تمام تر توانیاں صرف کرتے ہوئے اس کی تاریخ اور اخلاقی برائیوں پر قلم آرائی کرتے نظر آرہے ہیں۔فروری کے آغاز سے ہی یہ سلسلہ عروج پر ہے اور ہر اخبار کے ادراتی صفحات کی زینت بن رہا ہے۔
خود ساختہ قدامت پسند لبرلزاورمادر پدر آزاد خیالات کے حامل دانشوروں کی ایک مخصوص تعداد اس تہوارکی مخالفت کرنے والوں کو کند ذہن اور انتہا پسند ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور ”ویلنٹائن ڈے” کی فیوزو برکات اس طرح بتا رہے ہیں کہ گویا سارے جہاں کی سچی محبت صرف اس دن ہی کیلئے ہے اورپیار کے اظہار کی ضرورت واہمیت بیان کرنے میں نت نئے حیلے بہانے اور وجوہات بیان کر رہے ہیں۔
Valentine’s Day Celebrate
کوئی اس کو محرم رشتوں کے حد تک ضرور منانا چاہیے کی منطق بیان کرنے میں پیش پیش نظر آتاہے تو کچھ دھیٹ ذہنیت کے مالک دانشوراس کی مخالفت کرنے والوں کو فرسودہ خیالات کا حامل قرار دیکر طعنہ زنی کرتے نہیں تھکتے کہ کمیپوٹر،ٹی وی وغیرہ سب انگریز کی ایجاد ہیں اس کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے، رشوت، سود، ملاوٹ اور نفع خوری سمیت سارے جہاں کی برائیاں اکٹھی کر کے پوچھتے ہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے تو ”ویلنٹائن ڈے”کیوں نہیں منانا چاہیئے۔ ان عقل کے اندھوںسے بندہ پوچھے کہ بھائی رشوت ، اورملاوت کو کون اچھا کہتا ہے۔
تعلیم کے حصول اور تجارت کرنے سے کس نے انکار کیا ہے،ان ناعاقبت اندیش محبت کے دیوانوں سے جو گھر میں کبھی خونی رشتوں سے تو سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے اور یہاں بے حیائی کو یوم ِ محبت کا نام دیکر اس کی وکالت کرتے پھر رہے ہیں،ان کو بتایاجائے کہ مغرب کی سائنسی ترقی کا رازننگی ثقافت نہیں ہے بلکہ وہاں کے پڑھے لکھے طبقے کا سائنس کی طرف رجحان اور حکومتی سطح پر سرپرستی ہے۔باقی رہی آزادی کی بات تو اس ننگی آزادی کا ہی نتیجہ ہے کہ مغربی معاشرے کے ایک تہائی افراد کو یہ بھی نہیں پتہ کے انکا باپ کون ہے اور اسی مجبوری کی وجہ سے ان کے شناختی کارڈ پرباپ کی بجائے ماں کا نام لکھا جاتا ہے۔
خیر میں بات کر رہا تھا کہ میں نے پکا فیصلہ کیا تھا کہ اس دفعہ اس ٹاپک کو ہرگز نہیں چھیڑنا،اس بے حیائی کے حوالے سے بہت دفعہ لکھنے کو دل چاہا ،قلم تھاما مگر اپنے فیصلے پر کا ربند رہا کہ نہیں رہنے دو،یوں اس چیپٹر کو کلوز ہی رکھا۔لیکن سلام ہے نجی ٹی وی چینلز کی عظمت کو جنکی صحافتی بدیانتی کی بدولت ہمارے اہم اسلامی دن آتے ہیں اور گزر جاتے اور ہمیں پتا ہی نہیں چلتا،خلفاء راشدین ،صحابہ رسول اوراسلامی تاریخ کے بہادر سپہ سالاروں کو بھلادیا گیا ،لیکن اس کے برعکس اسلام کی ترویج اوراشاعت کے پروگرام دکھانے میں شرم محسوس کرنے والا الیکٹرونک میڈیایورپ کے حیا باختہ اور جنس پرست معاشرے کی پیروی میں فخر محسوس کرتا ہے۔
Valentine’s Day Celebration
ٹھیک 12 بجتے ہی سوشل میڈیا پر”ہیپی ویلنٹائن ڈے”کے سٹیٹس اپڈیٹ ہونا شروع ہوگئے ،نیوز چینلز کی ہیڈلائن بھی ”محبت کے دن کا آغاز””ہیپی ویلنٹائن ڈے ””پیار کے اظہار کا دن آگیا”جیسے عشقیہ جملوں پر مبنی تھیں۔اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے اکثر نجی انٹرٹینمنٹ ٹی وی چینلز پر چینل لو گو کے بالمقابل ”ہیپی ویلنٹائن ڈے”کا لوگو لگادیا گیا،”پیار بھرا پیغام اپنوں کے نام” ٹکر کیلئے سلائڈ چلائی دی گئی۔پیار کے سب رنگ ہمارے ساتھ،ٹی وی چینل ناضرین کو قائل کرنے کیلئے ”سپیشل پیکج”دکھائے جا رہے تھے کہ یہ ویلنٹائن ہمارے ساتھ منائیں۔
14فروری کی صبح اتوار کی چھٹی کی وجہ سے گھر پر ہی تھا کہ اپنا محبوب اور لازم و ملزوم مشغلہ ٹی وی آن کیا تو ہر طرف سرخی ہی سرخی چھائی ہوئی تھی ،نجی ٹی وی چینلز کی خوبروخواتین اینکرزنت نئے ڈیزئنوں سے آراستہ سرخ لباس زیب تن کیے ، ہاتھوں میں پھول لیے محبت کے دیے جلانے میںمصروف عمل ہیںاس مشن میں مرد اینکرزبھی ان کے شانہ بشانہ اپنا حصہ ڈالنے میں بہت پرجوش تھے اور بے حیائی کے بول بولنے اور ناچ گانے سے رنگ جمانے کیلئے بھانڈ میراثی اور ٹی وی ایکٹرز اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کرتے نظر آئے۔
الیکڑانک میڈیا نے”ویلنٹائن ڈے” منانے کا حق ادا کر دیا ،کچھ چینلزنے تو اپنے مزاحیہ سیاسی شو کو بھی ”ویلنٹائن ڈے” کے رنگ میں رنگ دیا۔ایسے میں ایک نجی ٹی وی پر ”سردی میں گرمی ہو،پوری بے شرمی ہو ” بدنام ِ زمانہ گانے پر ڈانس کر کے” ویلنٹائن ڈے ”کا اصل مقصد پرفارم کرکہ سمجھا دیا مگر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ پیمرا کہاں ہے ،چلے مان لیتے ہیں کہ پیمرا ہمیشہ کی طرح سو رہا ہے مگر ٹی وی چینلز کی غیرت کہاں گئی کہ انہوں نے ”بیرونی آقائوں”کو خوش کرنے کی غرض سے شرم و حیا کا جنازہ نکال کہ رکھ دیا۔
ویلنٹائن ڈے اسلامی اور مشرقی دونوں روایات کے منافی ہے،اس دن کی مناسبت سے بہت ساری روایات سننے کو ملتی ہیں جس میں روم کے پادری والی روایت کو مقبولیت کا شرف ہوتا جا رہا ہے۔باقاعدہ تحقیق کے بعداس حوالے سے اہم انکشاف کرنا چاہوں گا کہ یہ سب روایات من گھڑت ہیں اور انکا مقصد اس دن کو منانے کا جوازبنانا ہے۔محبت ایک انتہائی پاکیزہ اور انمول رشتہ ہے جسے کسی ایک دن اورتعلق تک محدود کرنا صریحاً زیادتی اور ناانصافی ہے ،درحقیقت اس آڑ میں بے حیائی اور بے شرمی کا ”NOC’حاصل کرنا مقصود ہے۔
قران حکیم میں اللہ تعالیٰ کا بہت واضح حکم ہے:بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ،ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(النور) اللہ جب لوگوں کو وارننگ دیتا ہے تو اکثر آخرت کے عذاب سے ڈراتا ہے لیکن یہاں پر اللہ نے بالکل واضح حکم دیا ہے کہ بے حیائی پھیلانے والوںکیلئے نہ صرف آخرت میں جہنم ہے بلکہ ان کی دنیاوی زندگی میں بھی اس بے حیائی کے بدلے سخت اور دردناک عذاب کی وعید دی گئی ہے۔الیکٹرانک میڈیا کی آڑ میں فحاشی اور بے حیائی کی ترغیب میں مصروف ِ عمل چینلز مالکان کو قرآن کی اس آیت کی روشنی میں بے حیائی پھیلانے کے بدلے دنیا اور آخرت کے عذاب کی وارننگ کو موقع غنیمت سمجھتے ہوئے برائی کے مقابلے میں اچھائی کا ساتھ دینے کا عہد کرنا چاہیے۔