پاکستان کا 68واں یوم آزادی 14اگست کو ملی جوش و جذبہ سے منایا گیا۔شہر شہر ملی نغمے اور قومی ترانوں کی گونج سنائی دیتی رہی۔ پورے ملک میں سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیاگیا۔مرکزی تقریب ایوان صدر اسلام آباد میںہوئی جس میں صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، مسلح افواج کے سربراہان، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وفاقی وزراء اور اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی، تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا اور آپریشن ضرب عضب کے شہداء کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ جشن آزادی کے سلسلے میں چاروں صوبائی دارالحکومتوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا سمیت ملک بھر میں تقریبات منعقدکی گئیں۔
یوم آزادی پرکسی بھی نا خوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے ملک بھر میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ۔پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ہونے والی جشن آزادی کی تقریب میں مسلح افواج کے دستوں نے مارچ پاسٹ کیا۔تقریب میں وزیراعظم نواز شریف، مسلح افواج کے سربراہان کے ہمراہ پاکستان آرمی، پاک بحریہ و فضائیہ کے دستوں کی طرف سے سلامی دی گئی۔ اسی طرح ملک کے دیگر شہروںمیںبھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
پاکستان لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ملک ہے۔ امسال یوم آزادی ان حالات میں منایا گیاکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور وطن عزیز پاکستان کواندرونی و بیرونی طور پر نقصانات سے دوچارکرنے کی خوفناک سازشیں کی جارہی ہیں۔ دشمنان اسلام کی خواہش ہے کہ پاکستان کبھی بھی ایک مضبوط اور مستحکم ملک نہ بن سکے۔ اس مقصد کیلئے ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، عصبیتوں اور لسانیت پرستی کو پروان چڑھایاجاتا ہے تو کبھی تخریب کاری و دہشت گردی کے ذریعہ اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی مذموم سازشیں کی جاتی ہیں۔
اس مرتبہ جشن آزادی کا مزہ اس لئے خاصا پھیکا رہا کہ انقلاب اور آزادی مارچ کے اعلانات بھی 14اگست کے قومی دن کے موقع پر ہی کئے گئے تھے حالانکہ اس دن کو قطعی طور پر متنازعہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔ پوری پاکستانی قوم کی طرف سے دو سیاسی جماعتوں کے ان فیصلوں اور یوم آزادی سے چند دن قبل سے ہی دھمکی آمیز خطابات کو کسی طور پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ یوم آزادی کے موقع پر الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا پر بھی جشن آزادی کی تقریبات کی بجائے انقلاب اور آزادی مارچ کاشوروغل دکھائی دیا۔
بہرحال امسال 14اگست کو تحریک آزادی پاکستان اور دو قومی نظریہ کے تحفظ کیلئے بے پناہ قربانیاں پیش کرنے والے محترم مجید نظامی بہت یاد آئے۔ نظریہ پاکستان کے جرنیل اور ہر مشکل وقت میں حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے مجید نظامی ہر سال چودہ اگست کو پروقار تقریب کا انعقاد کیاکرتے تھے جس کے ذریعہ وہ اہل پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت آزادی کی قدر کرنے کا سبق دیتے اور آنکھوں دیکھے واقعات بیان کر کے انہیں مکارہندوبنئے کا اصل چہرہ دکھاتے۔ پچھلے سال بھی ایوان کارکنان پاکستان لاہور میں ایک ایسی ہی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں محترم مجید نظامی نے جو خطاب کیا وہ آج بھی ہمارے لئے انتہائی سبق آمیز ہے۔
Allah
اپنے خطاب میں انہوں نے یوم آزادی کی مناسبت سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایاکہ میرے ایک کلاس فیلو عبدالمالک ہوا کرتے تھے۔ ہم لوگ ایک دن جلوس لے کر موجودہ ایم اے اوکالج کے قریب پہنچے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے کہ اتنے میں دوسری طرف سے اینٹیں برسنا شروع ہو گئیں ہم نے بھی جواباً اینٹیں پھینکیں۔ اسی دوران ایک اینٹ آکر عبدالمالک کو لگی اور وہ لہولہان ہو کر کم و بیش میری گود میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔
یہ اینٹ مجھے بھی لگ سکتی تھی اور میں بھی شہید ہو سکتا تھا لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں شہادت سے محروم رہا۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کے کردار اور مشن سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ مجھے میاں نوازشریف نے پاکستان کا صدر بننے کی آفر کی مگر میں نے انہیں کہا کہ میں ”نوائے وقت” کی کرسی ادارت کو ملک کی کرسی صدارت پر ترجیح دوں گا لہٰذا میں نے شکریہ کے ساتھ ان کی آفرقبول کرنے سے انکار کر دیا۔ محمد خان جونیجو نے مجھے گورنر پنجاب لگانے کی کوشش کی مگر میں نے معذرت کر لی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ بنائی تو مجھے بھی اس میں شامل ہونے کو کہا لیکن میں نے انکارکر دیا۔
اسی طرح اور بھی کئی ایسے واقعات انہوںنے بیان کئے جو ہماری نوجوان نسل کے لئے یقینی طور پر مشعل راہ ہیں۔ مجید نظامی کی تقریر ہمیشہ سبق آموز اور جرأت و استقامت کا درس دینے والی ہواکرتی تھی۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف نفرت ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ بھارت کے پاس بھی ایٹم بم اور میزائل ہیں اور ہمارے پاس بھی ہیں لیکن ہمارے ایٹم بم اور میزائل قرآنی زبان میں ہمارے گھوڑے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے یہ گھوڑے بھارتی کھوتوں (گدھوں) سے ہزار درجے بہتر ہیں لہٰذا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے کہ وہ تعداد میں زیادہ ہیں۔
وہ اس وقت بھی تعداد میں زیادہ تھے جب محمود غزنوی گھوڑوں پر بیٹھ کر سومنات پہنچ جاتا تھا۔ ہم نے ہندوستان میںاقلیت میں ہوتے ہوئے ایک ہزارسال تک حکومت کی ہے اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہم ہندوکے غلام بن کر نہیں رہ سکتے۔نظریہ پاکستان کے جرنیل مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی ہر دم دکھی رہتے۔ وہ کہاکرتھے کہ میں آج تک اس عظیم سانحہ کو نہیں بھول سکااور یہ کہ مشرقی پاکستان ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔مجید نظامی نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعہ نوجوان نسل کو اس کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرنے کیلئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ مجید نظامی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری ڈاکٹر شاہد رشید و دیگر کومحترم مجید نظامی کے مشن کو لیکر آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ مجید نظامی اگر آج زندہ ہوتے تو فلسطین میں غاصب اسرائیل کی طرف سے جو بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور فاسفورس بموں و کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال جیسے بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے جس طرح مظلوم فلسطینی بھائیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اس کے خلاف مضبوط آواز بلند کرتے اور حکمرانوںکی بھی سمت درست رکھنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرتے ۔ بہر حال ان کی کمی ہمیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔
Majid Nizami
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ادارہ نوائے وقت، نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ان کی ٹیم سے اسلام و پاکستان کے دفاع کا بہت زیادہ کام لے۔ لاالہ الااللہ کی بنیادوں پر حاصل کیا گیا یہ ملک جس کے حصول کیلئے لاکھوں غیور مسلمانوںنے محض اللہ کی رضا کی خاطر اپنا خون بہایا۔ اللہ رب العزت ان بے لوث مسلمانوں کی قربانیوں کو ان شاء اللہ کسی صورت ضائع نہیں کرے گا اور پاکستان ان شاء اللہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔