تحریر : میاں وقاص ظہیر گھر کی بالائی منزل پر میرا کمرہ ہے گھڑی رات کے 2بجا رہی تھی میرے ملک کی تین تہائی سے زائد عوام نیند کے مزے لوٹ رہی تھی ، موسم اس پہر بھی دلکش تھا میں اپنے کمرے میں تاریخ کی کتابیں کھنگال رہا تھا، مجھے تلاش تھی کسی بھی ایسے سال، مہینے ، دن کی ، جو عوام کیلئے خوشیاں لایا ہو، ہم اس سال اپنا 70واں یوم آزادی منا رہے ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ اس بار بھی 14اگست کو جشن منایا جائے یا نوحہ سنایا جائے، بس ۔۔۔! اس پریشانی سے نکلنے کیلئے میں تاریخ کی کتاب کے اوراق ایک ایک کرکے دوہرا تا رہا ، ہر صفحہ پلٹنے سے پہلے نئی امید کو دل میں جگہ دیتا کہ شاید اس صفحے پر ہی کوئی ایسے لیڈر کا نام مل جائے جو واقع ہی پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے سوچتا تھا ، اس کیلئے میں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو پڑھنا شروع کیا جو واقع ہی قوم کیلئے سوچتے ملک کو آگے لے جانا چاہتے تھے لیکن سازشوں کا شکار ہوکر خون پینے والے درندوں کی بھینٹ چڑھ گئے، ہم آج تک ان کے قاتلوں کو نہیں ڈھونڈ سکے ، وہ اسلئے کی خود ہی قاتل تھے اور خود ہی مقتول۔
پھر میں نے خواجہ ناظم الدین کے دورہ اقتدار سے شروع کرکے محمد علی بوگرہ ، چودھری محمد علی ، حسین شہید سہروردی ، ابراہیم اسمعیل چند ریگر ، ملک فیروز خان نون، نور الامین ، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو ، بے نظیر بھٹو، غلام مرتضی جتوئی ، میاں نوازشریف ، میر بلح شیر مزاری ، معین احمد قریشی ، ملک معراج خالد ، میر ظفر اللہ جمالی ، چودھری شجاعت حسین، شوکت عزیز، میاں محمد سومرو ، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف ، میر ہزار خان کھوسہ سے موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف تک ایک ایک لفظ کو رات کی اس تنہائی میں پوری توجہ سے پڑھا ، تاریخ کا ہر اگلا صفحہ مجھے پچھلے صفحہ سے زیادہ پریشان کرتا رہا۔
ان تمام وزرا اعظم کے ادوار کے صفحات میں جنرل سکندر مرزا ، جنرل ایوب خان ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء کے مارشل لائوں سمیت مشرف کی ایمرجنسی کے سیاہ اوراق بھی شامل تھے ، معاف کرنا۔۔۔! ان سیاہ اوراق میں 65ء ، 71ء کی جنگیں ، اے آرڈی کی تحریک، سقوط ڈھاکہ ، بھٹو کی پھانسی ، سانحہ کارگل اور اٹیمی دھماکے بھی شامل تھے جس کا ذکر کرنا یقیناََ اس قوم سے بھی زیادتی ہوگیا ، جن کیلئے فیض نے ٹھیک ہی کہا تھا کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو کچھ تو کہو ستم کشو ، فریاد کچھ تو ہو بیداد گر سے شکوہ بیداد کچھ تو ہو بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
Parliament
مجھے جو اپنی محدود عقل کے مطابق ان صفحات سے درس ملا یا میں ان سے جو اخذ کر پایا وہ یہ تھا کہ غداریوں اور ذاتی مفادات کے جراثیم ہر دور میں مسلمانوں میں وافر مقدار میں موجود رہے ہیں ، 1957میں بھی یہاں کی اسمبلی اجلاسوں میں کرسیاں ، جوتیاں چلتی اور گالیاں دی جاتیں ، آج تھوڑی سی تبدیلی صرف یہ آئی ہے کہ آج کرسیاں ، جوتیاں نہیں چلتی ، القاب نے ان کے جگہ لے لی ، اب پارلیمنٹ میں ”میسنا” ”انٹی” اور ٹریکٹر ٹرالی جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ، گالیوں کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے ، لہٰذا جس نے براس نکالنی وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔
پاکستانی حکومت پہلے دن سے اب تک پتلی تماشے کا کھیل بنی ہوئی ہے ، قوم ہے کہ ہر دور میں نعرے لگاتی رہی پھول آیا، تلوار آئی ، کتاب آئی ، بائیسکل آئی ، تیر آیا ، شیر آیا ، نہیں آیا تو ہم بد قسمت قوم کو شعور نہیں آیا ، ہر دور اقتدار میں خود کو عوامی نمائندے کہنے والوں کے ذاتی مفادات کیلئے راتوں رات وزارتیں ٹوٹتی اور بنتی رہی ہیں جس کی مشق آج بھی تواتر سے جاری ہے ، رعایا کے مسائل سے نہ کل کسی کو سروکار تھا نہ آج ہے۔۔۔۔۔
سانحہ پشاور ہو، کوئٹہ ہو ، لاہور ، حیدر آباد، کراچی ، اسلام آباد ہو ہم اسی طرح بارودی مواد کا نشانہ بنتے رہے گئے، سیکھنا ہے تو ترکوں سے سیکھ لو جس نے بتا دیا کہ مقدر بدلنے کا فیصلہ بھی آپ نے ہی کرنا ہے حکمرانوں کی طفل تسلیاں، مذمتی بیان اور امداد کے نام پر چند روپے ہی ہمارا مقدر رہیں گے ، شاعر نے ہمارے لئے کیا خوب کہا ہے یا خوف سے درگزیں یا جان سے گزر جائیں مرنا ہے کہ جینا ہے ایک بات ٹھہر جائے ورنہ آپ ہی مجھے بتا دیں کہ 70ویں یوم آزادی پر جشن منائوں یا نوحہ سنائوں ۔۔۔؟؟؟