تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال یوم آزادی آیاگزر گیا اس دوران میڈیا سے سیلاب متاثرین غائب ہیں ایسے جیسے ملک میں میں سیلاب کا کوئی مسئلہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی سیلاب سے متاثر ہوا ہو، ہماری حکومت کی طرح میڈیا کی بھی اپنی ترجیحات ہیں۔ ملک میں بارشیں جاری ہیں، فیڈر ٹرپ کر رہے ہیں، محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کے اکثر مقامات پر بارشوں کا امکان ہے۔ بعض مقامات پر بارشین جاری ہیں، بوسیدہ مکانات گر رہے ہیں جن کے نیچے آکر پاکستانی جانیں دے رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں بھارت نے پاکستانی دریائوں میں پانی چھوڑ دیا ہے۔
پاکستانی ڈیم بھر چکے ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ حالیہ سیلاب کے متاثرین بے یارو مددگار ہیں ۔اور یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ ملک میں جہاں جہاں سیلاب آیا ہے وہاں بیماریاں پھیل رہی ہیں میڈیا کی توجہ ان سیلاب متاثرین سے ہٹ چکی ہیں ۔ پاکستان کیسا ملک ہے جہاں جمہوریت ہے ، جہاںعوام کے نمائندے ہیں،پارلیمنٹ کی پوجا ہوتی ہے مگر عوام کا کوئی چارہ گر نہیں جمہور کا یہ حال ہے کہ بے حال ہے۔
ہمارے ملک میں ہرسال بھارت کی جانب سے چھوڑے جانے والے پانی،بارشوں،سیلاب سے سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں ،بہت سے دیہات زیر آب آجاتے ہیں ،مویشیوں اور فصلوں کو شدید نقصان ،پہنچ جاتا ہے ۔غربا کی کمائی ہر سال پانی میں بہہ جاتی ہے ،پسندیدہ بھارت نے پاکستان پر ایک تو ثقافتی یلغار کی ہوئی ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ اور دوسرا محاذ اس نے پانی پر کھول رکھا ہے ،اول تو ہمارے حصے کا پانی روک کر پاکستان کو صحرا بنانے کا منصوبہ ہے اس نے بے شمار ڈیم بنا لیے ہیں پھر وہ جب چاہتا ہے پانی چھوڑ کر پاکستان کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے جب چاہتا ہے پانی چھوڑ کر حملہ کر دیتا ہے ،اس طرح بھارت جنگ لڑے بغیر پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے ۔ہماری پارلیمنٹ میں اس پر کوئی قراد داد منظور نہیں ہوتی ۔عوامی نمائندے اپنا فرض پورا نہیں کرتے ،ہمارے ملک کے ذمہ دار میٹھی نیند سو تے رہتے ہیں ۔بے شک کہ بھارت کی سازش ہے۔ لیکن وہ تو دشمن ہے ،سازش ہی کرے گا، اس سازش سے آگاہ ہونا،اس کے نقصان سے ملک کو بچانے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ ۔انہیں اس کی فکر ہی نہیں ہے مرنے والے ان کے لیے اعدادو شمار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔آج بھی باپ اور بیٹا بارش کی وجہ سے بوسیدہ مکان کے گرنے سے اس کے ملبے تلے دب گئے اور جان سے گئے۔
پاکستان میں سیلاب ہر سال آتے ہیں،ہر سال بارشوں سے جانی و مالی نقصان ہوتا ہے تو ہم کو اس کی بہت پہلے منصوبہ بندی کر لینی چاہیے تھی ۔ مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ دوسروں کی سازش قرار دے کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، بارشوں سے ہونے والے نقصان سے بچاو کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی حکمرانوں سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ ہم نے ہر سال آنے والے سیلاب کی شدت میں کمی لانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ اقدامات کن اداروں نے کرنے تھے ؟کوئی ان کو پوچھنے والا ہے ؟کیاان کو اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر سزا دی جائے گی ؟ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔سوال یہ ہے کہ ان سیلاب زدگان کا کون چارہ گر ہے ؟
Pakistan Army’s Flood Relief
ہاں اس مشکل وقت میں پاک فوج اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت کے تحت عوام کی مدد کو پہنچ رہی ہے ۔اور امدادی کاروائیاںمسلسل جاری ہیں ۔ابھی تکمختلف مقامات میں چاروں طرف پانی ہے اور ہزاروں افراد اندر محصور ہو گئے ہیں ۔نظام زندگی مفلوج د ہے ۔حالیہ سیلاب اور بارشوںسے سب سے زیادہ نقصان دیہاتوں میں ہوا ہے اور مزید ہو رہا ہے۔آخری اطلاعات کے مطابق مزید بارشوں کا امکان ہے۔ بارشوں کی وجہ سے کمزور اور خستہ حال مکانات کی چھتیں گرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پاک فوج ہی جہاں جہاں سیلاب ہے چارہ گری کر رہی ہے ، سیاست دانوں کو تو سیاست سے فرصت نہیں ہے ۔پاک فوج ہمارا وہ ادارہ ہے جس پر پاکستانی عوام ہر دکھ سکھ میں اعتماد کرتی ہے سیاسی ٹولہ اس سال بھی سیاسی کیچڑ اچھالنے ،امدادی بیانات جاری کرنے اور فوٹو سیشن تک ہی محدود ہے ۔حکومتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ عوام کی حفاظت کے لئے سیلابی خطرات والے علاقوں میں مون سون سے قبل اقدامات کریں۔ بارشیں ہرسال برستی ہیں،مکان ہرسال گرتے ہیں ،مکین ہرسال بے گھر ہوتے ہیں، غرباکی جمع پونجی ہرسال ضائع ہوتی ہے ، آج سے700 سو سال پہلے کی بات ہے ۔منگ سلطنت(چین) میں ایک جاہل ،غیر جمہوری ،وحشی (دوسروں کے لیے )حکمران تھا ۔اس سلطنت میں نکاسی آب کا ایسا انتظام تھا کہ بارش چاہے جتنی بھی ہو کیا مجال کہ پانی شہر کی سڑکوں (کچے راستوں)پر ٹھہر جائے ۔اس ملک کے حکمران نے عوام کے لیے دن رات ایک کیے تھے۔
کیا ایسا کچھ پاکستان میں نہیں ہو سکتا ؟نہیں تو کیوں نہیں ہوسکتا ؟صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے ۔اور ان نمائندوں کو منتخب کرنے والے ہم عوام ۔ہمارے ملک میں اگر کوئی سیلاب متاثرین کا دور دور تک کوئی چارہ گر نہیں نظر آ رہا تو اس کی وجہ یہ ہے ،ہمارے اہل اقتدار کو عوام سے ہمدردی نہیں ہے ۔سب سیاسی ،مذہبی ،رہنمائوں نے اظہار ہمدردی کیا ہے ۔ ہر سال سیلاب آتا ہے ہر سال بارشیں ہوتی ہیں ،اس دوران حکومت نے وعدوں کے علاوہ کیا کیا ہے ؟کوئی ایک ایسا کام جس سے سیلاب میں ہونے والے نقصان ،تباہی سے عوام کو بچایا جا سکے حکومت نے نہیں کیا اس میں سابقہ حکومتیں بھی شامل ہیں اور سابقہ حکومتوں میں شامل نمائندے بھی ہیں جن میں سے اب بہت سے اپوزیشن میں ہیں ۔ان سب نے کوئی چارہ گری نہیں کی ۔کسی شاعر نے کیا خوب صورت شعر کہا ہے۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ورنہ ہمارے درد بہت لا دوا نہ تھے