تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی آزادی کے حصول میں ہندوستانیوں نے پہلی مسلح جنگ جو لڑی انگریزوں نے اس کا نام ‘غدر’دیا۔اس جنگ کے عموماً دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔اولاً یہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لیے تھے۔
دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انہیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ہندواور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے اپنے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلیی مچ گئی۔جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انہیں بیڑیاں پہنادی گئیں۔اور اس بات کی ذرا پرواہ نہیں کی گئی کہ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں۔مئی 1857میں غیر منظم انداز میں اس جنگ کا آغاز ہوا اور مارچ1858میں لکھنؤ، دہلی ،کانپور و دیگر مقامات ایک بار پھر انگریزوںکے تصرف میں آگئے۔
جنگ کے دوران بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصانات برداشت کیے گئے۔باوجود اس کے اندرونی سازشوں اور چپقلش نے ناکامی سے دوچار کیا۔آزادی کا جذبہ جو ایک طویل عرصہ سے محسوس کیا جا رہا تھا غدر کی ناکامی کے نتیجہ میں گرچہ کچھ مدھم پڑالیکن 90سالہ مزید جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد اگست1947میں ملک کوآزادی میسر آئی ۔اس مو قع پر جشن منائے گئے اور خوشیاں بانٹی گئیں اس امید کے ساتھ کہ آزاد ملک کی تعمیر و ترقی میں سب کو نمایاں کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے،بنیادی حقوق سب کے یکساں ہوں گے،امن و امان قائم ہوگا،مذہب کی بنیاد پر بانٹا اور تقسیم نہیں کیا جائے گا،ریاستی سطح پر مذہب کی بنیاد پر تشدد پھیلانے والوں پر گرفت کی جائے گی،ظلم و زیادتیاں ختم ہوں گی اور عدل ونصاف قائم ہوگا۔لیکن اس موقع پر جبکہ ابھی دو دن قبل ہی یوم آزادی منایا گیا ہے،سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ امیدیں برآئیں جن کے حصول کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت اہل ملک نے قربانیاں پیش کی تھیں؟اور اگر آزادی حاصل کرنے کے باوجود وہ امیدیں برنہیں آئیں جو مطلوب تھیں تو اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟کیا”پھوٹ ڈالو اور راج کرو”کی آڑ میں جس طرح انگریزوں نے ملک کو تقسیم کیااور غلام بنایا تھا وہ نعرے اور اس پر عمل درآمد کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔
انسانوں پر انسانوں ہی کی جانب سے دورغلامی میں جس طرح حددرجہ ظلم و زیادتیاں جاری تھیں کیا آج بھی یہ حالات ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں؟آزاد ہندوستان میں کیا آج بھی انسان غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے؟یہ اور ان جیسے بے شمار سوالات ہیں جو اُن کمزور ،محروم اورپست طبقات کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں،جنہوں نے در حقیقت آج تک اپنی زندگیوں میں لفظ ‘آزادی ‘کے معنی ہی نہ سمجھیں ہوں اور جن کی زندگیاں ‘آزادی ‘سے کبھی لطف اندوز ہوئی نہ ہوں۔آئیے ایک ایسے ہی واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں،جس کو پڑھ کر آزاد ہندوستان کے ہر شہری کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ واقعہ ریاست بہار کے ضلع لکھی سرائے کے گائوں کھرّا کا ہے۔جب منو تانتی نام کے ایک دلت مزدور اپنے پچھلے چار دنوں کی مزدوری مانگنے گیا تو اسے گائوں کے دبنگ لوگوں نے گیہوں نکالنے والے کریشر میں زندہ پیس ڈالا۔ حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ اس رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعہ کو ملک کے کسی میڈیا نے قابل توجہ نہ سمجھا۔دوسری جانب دلت میڈیا واچ ٹیم سے جڑے ارون کھوٹے کا کہنا ہے کہ “اتنی بے رحمی اور متشدد طریقہ سے کیے گئے قتل عام پر میڈیا کی خاموشی خود ایک شرمناک واقع ہے۔جس میڈیا نے گزشتہ دنوں ہیمامالنی کی گاڑی سے ہوئے حادثہ کو ہائپ دی، وہی میڈیااس واقعہ پر خاموش نظر آئی۔اگر سوشل میڈیا پر دو چار لوگوں نے اس واقعہ کو شیئر نہ کیا ہوتا تو کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوتی۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیسے غیر انسانی ،غیر اخلاقی اور بربریت پر منحصر معاشرہ میں جی رہے ہیں۔
Happy Independence Day
دلت ہونے کی وجہ سے ہم کس قدر غیر مہذب ریوں کو برداشت کر رہے ہیں،یہ ہم ہی جانتے ہیں۔جہاں اپنی مزدوری کے پیسہ مانگنے پر زندہ کریشر میں ٹھونس دیا جاتا ہو یا گولی مار دی جاتی ہو، اُس معاشرہ کی غیر اخلاقی حرکتوں کو برداشت کرنا انسان کی بات نہیں ہے۔ذلت و رسوائی کی زندگی کوئی انسان برداشت نہیں کر سکتا۔یہ صرف دلت ہی ہیں جو برداشت کیے جا رہے ہیں۔اور وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ نہ صرف ہم خود کو انسانوں سے کمتر سمجھتے ہیں بلکہ دیگر بھی ہمیں ایسی زندگی جینے پر مجبور کیے ہوئے ہیں،اس کے باوجود کہ وہ ہم سے زیادہ محنت نہیں کر سکتے۔ اگر دلت طے کر لے کہ میں سامنے والے کو ایک ہی وار میں ڈھیر کر دوں گا تو کوئی آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا،مگر افسوس ہم بات کرنے کی بجائے گڑگڑاتے ہیں،اسی وجہ سے ظالم کا ظلم بڑھتا جاتا ہے اور وہ ہمیں روند تے ہوئے گزر جاتے ہیں۔انہوں سوال کرتے ہوئے کہا کہ اس غیر اخلاقی،غیر قانونی حرکت پر حکومت تو قانونی خانہ پوری کر لے گی لیکن معاشرہ اس بدنامی سے کیسے نجات پائے گا؟کیا دلت کو معاشرہ میں مزدوری نہیں مانگنی چاہیے؟کیا اس کا اور اس کے بچوں کا پیٹ نہیں ہے؟کیا اُس وقت معاشرہ میں اُس دلت کو بچانے والے انسان نہیں تھے؟کیا سبھی تماشبین تھے۔
صرف اس کے قاتل ہی نہیں بلکہ ایسے تمام لوگ انسانیت کے قاتل ہیں جو حد درجہ ظلم دیکھیں مگر خاموش رہیں”۔ارون کھوٹے صاحب کا درد،دلتوں پر ہو رہے مظالم اور دیگر مظلومین پر جاری تشدد کو محسوس کرتے ہوے ذرا ایک لمحہ ٹھہریئے اورپھرآزاد ہندوستان کی آزادی سے لطف اندوز ہونے کی جرات کیجئے اوربتائیے آ پ کیسا محسوس کرتے ہیں! یوم آزادی کے موقع پر آئیے ایک اور واقعہ سے آپ کو روبرو کرتے چلیں۔کیا آپ کو معلوم ہے 15اگست1947کے دن مہاتما گاندھی دہلی سے ہزاروں کلومیٹر دور بنگال کے نواکھلی میںموجود تھے۔جہاں وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے انشن پربیٹھے تھے۔اور جب یہ بات طے ہو گئی کہ 15اگست ہی کے دن ہندوستان آزاد ہوگا تو جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل نے مہاتما گاندھی کو خط لکھا۔اس میں لکھا”قانونی اعتبار سے 15اگست ہمارا پہلا آزادی کا دن ہوگا،آپ راشٹر پتا ہیں،اِس میں شامل ہوں اور اپنا آشرواد دیں”۔گاندھی نے خط کے جواب میںلکھا” جب کلکتہ میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان لے رہے ہوں،ایسے میں جشن منانے کے لیے میں کیسے آسکتا ہوں؟میں تشدد روکنے کے لیے اپنی جان دے دوں گا۔
اگلے دن دہلی میں جشن منایا گیا،لال قلعے سے جھنڈا کشائی ہوئی،لیکن گاندھی اس جشن میں موجود نہیں تھے۔واقعہ کے پس منظر میں سوال اٹھنا ہی چاہیے کیا آج ملک مختلف قسم کے تشدد میں بری طرح گھرا ہوا نہیں ہے؟ زندہ مثال چندآوارہ نما نوجوان ہیں جو ٹھیک آزادی کے69ویں سالگرہ کے موقع پراتر پردیش ،میرٹھ میں پہلے ایک خاتون کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہیںاور جب ایک فوجی خاتون کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بعد میں حد درجہ تشدد اختیار کرتے ہوئے کھلے عام اس کا قتل کردیتے ہیں۔وزیر اعظم جو ملک کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار ہے ،سے ہم کہنا چاہیں گے کہ ملک میں بڑھتی غیر اخلاقی حرکتیں،حد درجہ ظلم و زیادتیاں اور عدل و انصاف کا دن دہاڑے قتل عام کے نتیجہ میں ممکن ہے حکومتی پنشن اور کچھ معاوضے تو اہل ملک کو حاصل ہو جائیں لیکن ملک کی تعمیر و ترقی میں میک ان انڈیا کا خواب تب ہی ممکن ہے جبکہ مجرمین کو مختلف خانوں میں بانٹ کر نہ دیکھا جائے۔ساتھ ہی نہ صرف حقیقت سے واقف ہوا جائے بلکہ عملی نمونے بھی پیش کیے جائیں۔اسی وقت آپ پر عائد وہ ذمہ داری بھی ادا ہوگی جس کے بیبانگ دہل بڑے دعوے کیے گئیں ہیں اور جن کی آس میں اہل ملک بے صبری سے نظر لگائے بیٹھے ہیں۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.co