تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جب بھی 14 اگست کا سورج طلوع ہوتاہے ، جانے کیوں مجھے ڈھاکہ کے پلٹن میدان کی وہ ٹھنڈی دھوپ یاد آجاتی ہے جب مغرور ومتکبر جنرل اروڑا نے سرِعام ہماری عظمتوں کونیلام کیا اوروہ جرّی جوان جو کل بھی ہمارافخر تھے اورآج بھی ہیں ، سَر جھکائے بے بسی کی تصویر بنے نظرآئے۔بلندی ایسی کہ ایک مردِ جرّی ، عظمتوںکے پہاڑ نے جان لیوابیماری کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے دو بدترین دشمنوں (برطانیہ اوربھارت) کوسیاسی میدان میں شکستِ فاش دیتے ہوئے اسلام کی تجربہ گاہ قائم کرنے کے لیے زمین کا ایک ٹکڑاحاصل کرلیا اورقوم بے ساختہ پکار اُٹھی ”اے قائداعظم ! تیرا احسان ہے ، احسان”۔پستی کی انتہایہ کہ 24 سال بھی گزرنے نہ پائے کہ ہم نے حضرتِ قائد کے احسانوں کابوجھ اتار پھینکا ۔
14 اگست کو جو پاکستان معرضِ وجود میںآیا ، اُسے تو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میںسیاست کی بھینٹ چڑھا آئے۔ یہ پاکستان تو ذوالفقارعلی بھٹو کی کوششوں اور کانتیجہ ہے جنہوںنے مسندِاقتدار کی خاطر اُدھر تُم ، اِدھرہم کانعرہ لگاکر ایک” نئے پاکستان” کی بنیاد رکھی ۔ اقتدار کی یہ جنگ توآج بھی جاری ہے اور ”نئے پاکستان” کاشور بھی بہت ۔ خاکم بدہن کہیں ایسانہ ہوکہ ہمیں ایک دفعہ پھرکسی ایسے ہی سانحے سے دوچار ہونا پڑے کیونکہ اقتدار کے بھوکے بھیڑیے تو اُسی راہ پہ چل نکلے جو بربادیوں کی خبر لاتی ہے ۔ فضائیں مسموم ہیں اور بادِ شمیم ونسیم کی خبرلانے والا کوئی نہیں ۔ایسے میںہم کر بھی کیا سکتے ہیںسوائے دُعاکے لیکن ہماری تو دعائیںبھی مستجاب نہیں ہوتیں۔
ہم ہرسال بڑے جوش وخروش سے یومِ آزادی مناتے ہیں ۔ پورے ملک میں پاکستانی پرچموں کی بہار آئی ہوتی ہے ۔سوال مگر یہ کہ کتنے ہیں جو اِس پرچم کی قدروقیمت جانتے ہیں؟۔کتنے ہیں جو اِس پرچم کی لاج رکھتے ہوئے سَچّے اور سُچّے پاکستانی بننے کی کوشش کرتے ہیں؟۔ کتنے ہیں جو اِس پرچم کی حُرمت پر کَٹ مرنے کوتیار ہیں؟ ۔ کیابھتہ خور ، ٹارگٹ کلر ، پرچی مافیہ اور قبضہ گروپ اِس پرچم کی تکریم کریں گے یا ٹیکس چور ، کرپشن کے نگرمچھ ، قرضے معاف کروانے والے اور ملکی دولت پاکستان کی بجائے بیرونی ممالک میں محفوظ سمجھنے والے؟۔ کیا اقتدار کے بھوکے گِدھ اِس پرچم کی رفعتوں سے آشنا ہیں یا ذخیرہ اندوزی کرکے مہنگائی کا عفریت کھڑا کرنے والے ؟۔ کڑوا سچ یہی کہ ہم من حیث القوم اتنے کرپٹ ہوچکے ہیں کہ آزادی کی قدروقیمت سے آگاہ ہیں نہ آشنا۔
14 August
14 اگست کی رات نسلِ نَو جو طوفانِ بدتمیزی بپا کرتی ہے اُس سے ہر کہ ومہ آگاہ ۔ سڑکوںپر ٹریفک کا اژدہام ، اُس پر مستزاد سائیلنسرپھٹے موٹرسائیکلوں کاشور اور وَن ویلنگ کاطوفانِ بدتمیزی ۔ کیا زندہ قومیں جشنِ آزادی ایسے ہی مناتی ہیں؟۔ کیا نئی پَودکو یہ بتانے والے لَد گئے کہ دھرتی ماں کی مٹی میں کتنے شہیدوںکا لہو شامل ہے ؟۔ کوئی تواِنہیںبتائے کہ ہمارے بزرگوں نے زمین کے اِس ٹکڑے کے لیے آگ اورخون کے کتنے دریا پار کیے ، رنج والم کی کیسی کیسی گھاٹیاں عبور کیں ، کِن سنگلاخ زمینوںپر پا شکستہ سفر کرنا پڑا ، کتنے گھر اُجڑے ، کتنے دَر جلے ، کتنے کڑیل جوان شہید ہوئے ، کتنی بیٹیوںکے سَروں سے ردائیں چھنیں اور کتنی عفت مآب بہنوںکی عصمتیں لُٹیں ۔ صرف مشرقی پنجاب میں پچاس ہزار عورتیں اغوا ہوئیں ۔ ہندوؤںنے سکھوں کو امرتسر سے دِہلی تک کاعلاقہ مسلمانوں سے پاک کرنے پر ”سکھستان” کالالچ دیا اور درندہ صفت سکھوںنے ننگِ انسانیت کا کوئی حربہ ایسانہ تھا جو مسلمانوںپر آزمایا نہ ہو۔
15 اگست کو سکھوںنے امرتسر کی گلیوں میں برہنہ مسلمان عورتوںکا جلوس نکالااور سرِعام اُن کی عصمت دری کرنے کے بعد کرپانوں سے اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یومِ آزادی منایا ۔ انڈیا سے پاکستان آنے والی ہر ٹرین خونم خون ہوتی ۔ اِس کے باوجودبھی لُٹے پُٹے بچ جانے والے مہاجر جونہی پاکستان میںداخل ہوتے ،سب سے پہلے دھرتی ماں کوچومتے اور پھر ”پاکستان زندہ باد” کے نعرے لگاتے۔ نسلِ نَو کی چشم کشائی کے لیے لندن کے اخبار” ڈیلی میل ” کے نمائندہ مسٹر رالف کی یہ رپورٹ ہی کافی ہے جس نے اُنہی دنوں کراچی سے دِہلی تک کا سفرکیا ۔ اُس نے لکھا ” جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازمِ دِہلی ہواتو مجھے راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر آیا ، نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی ۔ لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت و بَربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اُسی دِن لاہور میں خون سے لَت پَت ٹرین پہنچی تھی ، یہ ٹرین ٩ ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سما سکتے تھے۔ اِس ٹرین کے مسافروں کو بٹھنڈاکے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کر دیا گیا تھا۔
ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لیے روانہ ہوئی ۔ پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جو لاہور کی لُٹی پھُٹی ٹڑین سے کہیں زیادہ ہولناک اور دہلا دینے والے تھے ۔ گِد ھ ہر گاؤں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹڑی پر اکٹھے ہو رہے تھے ، کُتّے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروزپور کے مکانات سے ابھی تک شُعلے اُٹھ رہے تھے ۔ جب ہماری ٹرین بھٹنڈا پہنچی تو مجھے ٹرین سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا ۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دوسپاہی وہاں مزید لاشوں سے لَدی بَیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر پھیلتی گئی ۔ اُس ڈھر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا ۔ سپاہیوں نے اُسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سِسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے ۔ لاشوں کے ڈھیر سے تھوڑے فاصلے پر ایک بوڑھا کسان دَم توڑ رہا تھا ، اُس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے تھے اور گلے سے خون جاری تھا اور ایک کُتا زمین پر اور ایک گِدھ درخت پر اُس کی موت کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے۔
14 August 1947
نسلِ نَو کواُس جوش وجذبے اور اُن مسرتوںسے روشناس کرانے کی بھی ضرورت ہے جسے 13 اور 14 اگست1947ء کی درمیانی رات کو ارضِ وطن کے باسیوںنے محسوس کیا۔ یہ جمعہ ستائیس رمضان المبارک کی وہ رات تھی جسے ربّ ِ کریم نے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا ۔ برِصغیر میں اِس مقدس رات کے اِستقبال کی تیاریوں میںآزادی کا جذبہ و جنوں بھی شامل ہو چکا تھا ۔ ہر گھر کو دُلہن کی طرح سجایا جا رہا تھا اور ہر چھت پر بلند سے بلند سبز ہلالی پرچم لہرانے کا مقابلہ جاری تھا نوجوان سبز اور سفید رنگ کی پتنگوں پر ” پاکستان زندہ باد ” لکھ کر اُڑا رہے تھے لیکن مجال ہے جو کوئی اِن پتنگوں پر پیچ ڈال کر اُس کو کاٹنے کی جُرآت کرے کہ کسی کو پاکستان کے نام کی پتنگ کا کَٹ جانا قبول ہی نہیں تھا ۔ نوجوان لڑکیاں سبز و سفید رنگ کی اَوڑھنیاں اوڑھے اتراتی پھر رہی تھیں اور سبز ہلالی آنچل ہواؤں کے دوش پر لہراتے ہوئے عجب بہار دکھا رہے تھے مسلمانوں کے چہرے خوشی سے دَمک رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے فضائیں بھی خوشی کے گیت گُنگنا رہی ہوں۔
جونہی سورج نے اپنی کرنیں سمیٹ کر اُفق کے اُس پاربسیرا کیا تو مسلمانوں نے گھروں ، گلی کوچوں اور بازاروں کو برقی قمقموں اور پھولوں سے سجانا شروع کر د یا ۔ گھروں میں رکھے ریڈیو سیٹوں کی تو گویا قسمت ہی جاگ اُٹھی۔ اُن کی صفائی ستھرائی ہونے لگی اور کچھ لوگوں نے تو اپنے ریڈیو سیٹ بھی گلاب اور موتیے کے پھولوں سے سجا ڈالے ۔ شاید وہ پہلی رات تھی جب کسی کو افطاری کا ہوش نہ تھا، نظریں تھیں کہ بس گھڑی کی ٹِک ٹِک پر جمی ہوئی تھیں ، سبھی کو رات کے بارہ بجنے کا انتظار تھا ۔ رات ذرا گہری ہوئی تو برقی قمقموں کی بہار سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے آسمان کے سارے ستارے زمین پر اُتر آئے ہوں ، جیسے کہکشاں نے دھرتی کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا ہو ، جیسے چاند نے سبز چادر اوڑھ لی ہو۔
مساجد میں ختمِ قُرآن کی محافل شروع ہوئیں اور ہزار مہینوں سے بہتر اِس رات پر ہاتھ دُعاؤں کے لیے اُٹھ گئے لیکن آج لبوں پہ صرف ایک دُعا تھی ، آزادی ، آزادی ، آزادی ۔ پھر وہ سعد گھڑی آن پہنچی ۔ گھڑی نے ٹِک ٹِک کرتے ١٢ بجائے اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے وقت کی نبض تھَم گئی ہو ، دِل دَھڑکنا بھول گئے ہوں ۔ کراں تا کراں پھیلی گھبیر خاموشی کا طلسم توڑتے ہوئے اچانک ریڈیو پر شکیل احمد کی پاٹ دار آواز گونجی ” یہ ریڈیو پاکستان ہے ” آج بھی 14اگست ہی ہے اور ہمیں سوچنا ہے تو صرف یہ کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جو علامہ اقبال کاخواب اوربابائے قوم کی کوششوں اور کاوشوںکا ثمرتھا؟۔ اگرنہیں توپھر کاش کہ ہم اپنی اداؤں پہ اب بھی غورکرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔