یوم آزادی ایک نئی امید کے ساتھ

14th August Celebration

14th August Celebration

تحریر : سعید اللہ سعید
الحمداللہ! اللہ تعالیٰ رب العزت وحدہ لاشریک کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ہم ایک بار پھر یوم آزادی نہایت جوش خروش سے منارہے ہیں۔ یوں تو ہم 14اگست کو گذشتہ انہتر سالوںسے بطور یوم آزادی مناتے چلے آرہے ہیں لیکن اس سال یوم آزادی کا جشن ذرا ہٹ کہ اور خوشی کچھ زیادہ ہی ہوگی کیوں؟ تو اس لیے کہ گذشتہ کچھ سالوں سے ہم بے لگام گھوڑے کی طرح بے سمت دوڑتے چلے جارہے تھے۔ہمارا ضمیر اس قدر بے حس اور مردہ ہوچکا تھاکہ ہم بزرگان تحریک آزادی پاکستان کے وژن و سوچ کو مکمل طور پر فراموش کرکے دشمنان ملک و ملت کو صحیح سمجھ کر خود کو ان کے سپرد کرچکے تھے۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی کہ ہر محب وطن غمگین و افسردہ تھااور وہ دن رات یہی سوچ رہاتھا کہ کیا وطن عزیز کے پالیسی ساز پھر سے واشنگٹن کے بجائے مکہ کو اپنا قبلہ تسلیم کرلیں گے۔

یہ شاید اہل وطن کی دعائوں کا ثمر تھا کہ آج وطن عزیز کے کرتا دھرتا مکمل طور نہ سہی لیکن کسی نہ کسی حد تک اپنے سابقہ روش سے رجوع کرچکے ہیں۔ یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ آج ہمارے ملک کی قیادت کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ ہندوستان سے دوستی کے پینگیں بڑھانا اپنے اکابرین کی روحوں کے ساتھ غداری، کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی اور خود کو دھوکا دینے کی سوا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقوام متحدہ میں طویل عرصے بعد کشمیر کی گونج سنائی دے رہاہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی دوست اگرچہ ہماری حکومت آج بھی ہے لیکن یہ بھی مقام شکر ہے کہ اب اعلیٰ سطح پر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ امریکہ پر حد سے زیادہ انحصار ہمیں مزید تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

دوسری جانب اگر ہم نظر ڈالیں ملک کے اندرونی صورت حال پرتو یہاں صورت حال اگرچہ کچھ زیادہ امید افزا نہیں۔ مہنگائی کا جن بدستور قابو سے باہر ہے۔ ملک کا مزدور اور ملازمت پیشہ حسب معمول استیصال کا شکار ہے۔ تعلیم کے دروازے غریب کے بچے پر بند ہے۔بے روزگاری،پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا بھی ہمیں سامنا ہے لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ اب قانون کا ہاتھ ہر اس فرد اور گروہ کی جانب بڑھنے لگا ہے جو کہ کسی بھی تخریبی سرگرمی میںملوث ہو۔ یہ بھی پہلی بار ہی ہورہا ہے کہ سیاسی شیلٹر زمیں پناہ لیے ہوئے تخریب کار اور ان کے فنانسر ز جوکہ خود کو قانون سے بالاترسمجھ رہے تھے اب قانون کی گرفت میں ہیں اور ان کے مزید ساتھی بھی جلد ہی قانون کے شکنجے میں آجائیںگے۔

14th August

14th August

یہ ہے وہ عوامل جس کے بنا پر آج کا 14اگست ہم ایک نئے عزم اور نئی امید کے ساتھ منارہے ہیںاور آئندہ کے لیے بھی ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے حکمرانوں کو یہ توفیق دیں کہ وہ پاکستان کو ایسا پاکستان بنائے کہ جس کا ہمارے اکابرین نے اس وقت مسلمانان ہندکے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ وہ پاکستان کیسا ہوگا تو اس کے لیے ہمیں ذرا ماضی میں جھانکنا ہوگا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حصول پاکستان کے لیے جدوجہد صرف اس طبقے نے نہیں کی کہ جو پہلے سے اس علاقے میں موجود تھایا وہ آزادی ملتے ہی ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے۔ بلکہ مسلمانان ہند کا ایک بہت بڑا طبقہ اس وقت ایسا بھی تھا کہ جو پاکستان آ نہیں سکتے تھے اور جنہیں یہ معلوم تھا کہ مسلمانوں کو ایک آزاد وطن ملنے پر وہ ہندوستان میں ہندئووں کے غیض و غضب سے بچ نہیں سکیںگے لیکن وہ پھر بھی اس امید پر تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے کہ چلیں ہمیں نہ سہی ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو تونئے وطن میں اسلام اور اسلامی معاشرے کے وہ ثمرات اور خیر و برکات مل جائیں گے جن کا ملنا ہندووں کے ساتھ اکٹھے رہتے ہوئے کسی بھی طور ممکن نہ نہیں۔

ان مسلمانوں کا ایسا سوچنا بجااور برحق تھا کیونکہ اس وقت تحریک کے قائدین نے ان سے یہ وعدہ کررکھا تھاکہ جب ہم آزاد وطن کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تو یہ کہ نہ صرف نیا وطن مدینہ منورہ کے طرز کا ایک فلاحی اسلامی مملکت ہوگا بلکہ مصیبت کے کسی بھی گھڑی میں وہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ قائدین کے عز م مصمم کو دیکھ ہندوستانی مسلمان نتائج سے بے پرواہ ہوکر یقین کامل کے ساتھ حصول مقصد کے لیے میدان میں کود پڑے اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر وطن عزیز کو آزاد کرایا۔ آزادی کے بعد شائد ہماری بدقسمتی تھی کہ محمد علی جناح جلد ہی دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ قائد کے انتقال کے بعد ملک اسلای فلاحی ریاست بننے کی بجائے سیاسی اکھاڑا بن گیا۔ کوئی زبردستی تو کوئی دھونس دھاندلی کے ذریعے وطن عزیز پر مسلط ہوتا گیا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے جو بھی حربا مناسب سمجھا۔

اسے اپنانے سے بالکل بھی گریز نہیں کیا۔ مفاد پرستی کے اس کھیل ہی کا نتیجہ ہے کہ وطن عزیز میں آج جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ گناہ سے تو پاک لیکن قرض کا بھاری بوجھ سر پر لیے اس دنیا میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مفاد پرستی کے اس کھیل کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ 1973کے متفقہ آئین کے کئی شقوں پر آج تک حکمران طبقے کوعمل کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے ذاتی مفادات پر زد پڑتی لیکن دوسری طرف اگر نگاہ اٹھا کر دیکھا جائے تو آئین میں کرائے گئے کئی ترامیم صرف و صرف حکمرانوں کے ذاتی اختیارات کو دوام بخشنے کے لیے ہیں نہ کہ عوامی مفاد کے لیے ۔ اب ایک لمبے عرصے کے بعد ہمیں اگر عسکری قیادت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بدولت تھوڑا سا سکون بھی ملا ہے تو ہمیں اسے گنوانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ سچ یہ ہے کہ جب ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان۔

Saeed Ullah Saeed

Saeed Ullah Saeed

تحریر : سعید اللہ سعید
saeedullah191@yahoo.com