تحریر : ساجد حبیب میمن سوچتا ہوں کیا لکھوں۔ آزادی کے نغمے لکھوں یا ماتم کے نوحے پڑھوں۔ ارضِ پاک پھر لہو لہو ہے، ابھی پرانے زخم نہیں بھرتے کے مکار دشمن نیا وار کر دیتا ہے۔ کوئٹہ میں ارضِ پاک کے دشمن وحشی درندوں نے میرے 80 ہم وطنوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ بہت سی مائوں سے ان کے لختِ جگرچھین لئے، معصوم بچوں کو یتیم کر دیا، عورتوں سے ان کے سرتاج چھین لئے۔ ان گنت گھر اجاڑ دیے!۔۔ میری زبان اور میرے الفاظ اس وحشت اور بربریت کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ پورا وطن اس المناک واقعہ سے سوگوار ہے۔ آزادی کا جشن اور آزادی کے نعرے پھیکے پڑ گئے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں کوئی کیوں اور کس آزادی کا جشن منائے؟ وطنِ عزیز پر آفتوں اور عذابوں کے سائے لمبے کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ کیوں ملک ایک سے بڑھ کر ایک مشکل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ مسائل بے شمار ہیں اور کسی مسئلہ کا مستقل حل نظر نہیں آتا۔ باقی سب ایک طرف اس دہشت گردی کے ناسور سے جان کیوں نہیں چھوٹ رہی؟ اس قوم سے کونسا گناہِ کبیرہ سرزد ہوا ہے کہ جس کی سزا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ وطنِ عزیز کو لہو لہو دیکھ کر یہ چبھتے ہوئے سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ قدرت کا ایک قانون قانونِ مکافات عمل ہے۔یہ قانون افراد پر انفرادی طور پر بھی لاگو ہوتا ہے اور قوموں پر اجتماعی طور پربھی۔ اس آزادی کے مہینے میں دہشت گردی کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیں کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے تو ضمیر جواب دیتا ہے کہ تم نے آزادی کی نعمت کی قدر نہیں کی۔
تم نے آزادی کو انفرادی اور اجتماعی طور پر قانونِ قدرت اور مذہب سے بالاتر سمجھ لیا اور لاالہٰ الااللّہ کے نام پر حاصل ہونے والی پاک سرزمین پر ہر طرح کے ناپاک گناہ کیے۔ تم نے مذہب کا دامن چھوڑ دیا۔ تم نے ان کو دوست سمجھ لیا جو پہلے تم سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور پھر تمھاری پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ تم نے اپنی فطری اور نظریاتی آزادی کو حوس ، لالچ اور عیاشی کے لئے اغیار کے پاس گروی رکھ دیا۔ قرضوں تلے دبدتے گئے ، جی حضور کرتے گئے، ڈو مور کے مطالبات مانتے گئے۔ تمھارے اسی لالچ نے، اسی عیاشی نے، اسی جی حضوری نے تمھیں اپنے وطن کی حفاظت سے غافل کر دیااور تمھارے دشمن تمھاری صفوں کے بیچ آ کر بیٹھ گئے۔وہ جب چاہتے ہیں تم پر وار کرتے ہیں۔ تم چاہ کر بھی ان کا خاتمہ نہیں کر پارہے۔ تم ہر وقت ان کی درندگی کے نشانے پر ہو ، تم ان کا کچھ بگاڑ نہیں پا رہے۔ یہی وہ غلطی اور گناہ ِ کبیرہ ہے جس کی سزا تم آج تک بھگت رہے ہو۔
Independence Day Pakistan
کاش تم نے خود انحصاری کا سبق سیکھا ہوتا۔ کاش تم نے اپنی غیرت کا سودا نہ کیا ہوتا۔ کاش تم دوست اور دشمن کافرق کر سکتے۔ کاش کہ تم نے قرآن سے سیکھا ہوتا کہ یہود و نصاریٰ کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ کاش کہ تم عیاشی میں نہ پڑتے ، کاش تم وطنِ عزیز کو قرضوں کے بوجھ تلے نہ لادتے اور کاش کہ اپنی صفوں میں دشمنوں کو گھسنے کا موقع ہی نہ دیتے۔
انسان جھوٹ بول سکتا ہے لیکن اس کا ضمیر کبھی اس سے جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر ہم پاکستانی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی ناکامیوں کی وجہ اپنے ضمیر سے پوچھیں تو اپنے ہی ہاتھ اپنے گریبان تک پہنچیں گے۔ شاید قارئین نہ سمجھیں اس لئے میں ذرا تفصیل سے سمجھاتا ہوں۔
2003 اور 2004 میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات اور ڈرون حملے شروع ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر امریکہ حضور کو اپنی قومی سلامتی کے تمام راز دے چکے تھے، اپنے فضائی اڈے فراہم کر دیے تھے، سپلائی کے لئے رسد گاہیں دے دیں تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکیوں اور یورپیوں کی پاکستان کے اندر آزادانہ نقل و حرکت ہونے لگی۔ ڈیورنڈ لائن سے نئے افغان مہاجرین بھی آ رہے تھے، سیکیورٹی کا ہمار ا کوئی اندرونی نظام موجود نہیں تھا۔ جنرل مشرف کی توجہ سیاسی جوڑ توڑ اور اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے پر مرکوز تھی۔ اسی صورتِ حال میں بدنامِ زمانہ امریکی خفیہ ایجنسیوں اور راء نے پاکستان کے اندر قدم جمائے اور آہستہ آہستہ ان کا نیٹ ورک انتہائی مضبوط ہو گیا۔ جنرل مشرف کی صدارت میں ق لیگ اور بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران یہ ایجنسیاں پاکستان کے اندرانتہائی فعال ہو گئیں۔
روزانہ کی بنیاد پر خود کش دھماکے ہونے لگے۔ ان دنوں ہمارے خفیہ اداروں کی طرف سے یہ اعداد و شمار بھی فراہم کیے جاتے رہے کہ ملک دشمن ایجنسیوں کے 12 ہزار اہلکار پاکستان کے اندر داخل ہو چکے ہیں لیکن ان کو روکنے اور نشاندہی کرنے کے لئے حکومتوں نے کچھ نہیں کیا بلکہ جب کبھی عوامی مقامات پر غیرملکی ایجنسیوں کے اہلکار مشکوک سرگرمی کی بناء پر گرفتار ہوتے تو رحمٰن ملک کا ایک فون انہیں آزاد کروا دیتا تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار مختلف بھیس بدل کر قبائلی علاقوں کو اپنی گرفت میں کرتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے دینی مدرسوں کو ٹارگٹ کیا اور معصوم بچوں کو جہاد کی غلط تشریح کر کے ورغلایا۔ ملائوں کا روپ دھار کر مدرسوں کے اندر معصوم بچوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے لگے۔ مذہب کے نام پر قبائلیوں کی برین واشنگ کرتے رہے اور مسلحہ گروہوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتے رہے۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشل ائیرپورٹ پر امریکی کارگو طیارے اترتے تھے اور ان کا سامان بغیر کسی چیکنگ اور سکیورٹی کلئیرنس کے کنٹینرز میں بھر کے نامعلوم مقام پر بھیج دیا جاتا تھا۔
جبکہ افغانستان کے اندر بھارت نے اعلانیہ اور غیراعلانیہ طور قدم جما لئے۔ راء کے ہزاروں اہلکار افغان باشندوں کا روپ دھار کر پاکستان میں متحرک ہو گئے ۔ کلبھوشن یادِو انہی میں سے ایک ہے۔ اس عرصہ میں ہماری قومی حکومتوں نے اس بیرونی مداخلت کو روکنے کے بجائے ان کو قدم جمانے میں سہولت فراہم کی۔جنرل مشرف سب سے زیادہ قصوروار ہیں۔ انہوں نے اپنے اقتدار کی خاطر سرزمین پاکستان پر امریکیوں کو گھنائونے عزائم پورے کرنے میں سہولت دی۔
Pakistan Nuclear Power
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی تھنک ٹینکس اسلام اور پاکستان کو عیسائیت کے خلاف سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے سے ان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ امریکی اور بھارتی گٹھ جوڑ ہی پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے۔ جنرل راحیل کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب کے بعد بیشتر امریکی خفیہ اہلکار بھاگ گئے ہیں لیکن راء کا مضبوط نیٹ ورک اندر ابھی بھی فعال ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارتی اور پاکستانی شہری میں امتیاز کرنا مشکل ہے۔ بھارتی جاسوس دس دس سال سے عام پاکستانی شہری کے روپ میں پاکستان کے اندر موجود ہیں۔
اس سال یومِ آزادی کے موقع پر ہمیں اپنے آپ اور ارضِ پاک سے عہد کرنا چاہیے کہ یہودو نصاریٰ کی جھوٹی دوستی کے چکروں میں نہیں آئیں گے۔ ملک و ملت کی نظریاتی اور فکری آزادی کے لئے جدوجہد کریں گے۔ ایسے حکمران چنیں گے جو قوم کو خودداری اور خود انحصاری کا راستہ دکھائیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنی تاریخ میں دو بار امریکہ کی جنگ لڑی ہے ، فائدہ دونوں بار امریکہ کو ہوا جبکہ پاکستان کے حصے رسوائی، جانی و مالی نقصان ہی آیا۔
اس لئے مستقبل میں پاکستان کو کبھی امریکی مفاد کی خاطر خود کو انجانی آگ میں نہیں جھونکنا چاہیے۔ اس یوم آزادی پر ہم یہ بھی عہد کریں کہ آزادی کے نام پر مذہب اور قانونِ فطرت کا مذاق نہیں بنائیں گے۔ مذہب کو اپنی زندگی میں رہنما اصول بنائیں گے۔ قرآن کی تعلیمات پر عمل کریں گے۔ دہشت گردی کو مکمل ختم کرنے کے لئے اپنی صفوں میں موجود دشمن کے کتوں کو چن چن کر ہلاک کرنا ہوگا۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔
Sajid Habib Memon
تحریر : ساجد حبیب میمن ای میل: sadae.haq77@gmail.com موبائل: 0321-9292108