اب کا یوم آزادی پاکستان جنگ کے دھانے پر

14th August Independence Day of Pakistan

14th August Independence Day of Pakistan

تحریر : میر افسر امان

پہلی اگست ٢٠١٩ء سے ہی پاکستانی یوم آزادی منانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو گئے ہیں۔ جسے جسے اگست کی١٤ تاریخ کی طرف بڑھ رہا ہے جوش آزادی بھی اپنی انتہائوں کو چھونے لگا ہے۔اگر ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تحریک آزادی پاکستان کو دنیا کے سامنے پیش کریں تو قائد نے جمہوری طریقے سے ہنددئوں اور انگریزوں کو اب بات پر قائل کیا تھا کہ برصغیر میں دو قومیں رہتی ہیں۔ ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ان کا مذہب الگ، ان کی تہذیب،تمدن، ثقافت اور معاشرت الگ۔ ان کی ہیرو الگ الگ۔ یعنی ان دو قوموں میںکوئی چیز بھی مشترک نہیں۔ تو پھر ان کو کیسے متحد رکھا جا سکتا ہے؟لہٰذا انگریزقتدار ایک قوم کے بجائے دو قومیں کو دے کر برصغیر سے نکل جائیں۔ ہندوئوں سے کہا کہ برصغیر کاایک چوتھائی حصہ مسلمانوں کو دینے سے نہ گھبرائو۔ تمھارے پاس تین چوتھائی برصغیر پھر بھی رہ جائے گا۔ کیونکہ کہ انگریز نے برصغیر مسلمانوں سے چھینا تھا۔مسلمان برصغیر پر ہزار سال سے زاہد حکومت کر چکے تھے، لہٰذا وہ ہمیشہ مسلمانوں سے خائف رہتے تھے۔جاتے جاتے دیگر بہت سی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کو جانے والے واحد راستہ ضلع گرداس پور کو بھی سازش سے ہندوئوں کو دے گئے۔ ہنددئوں کو اکثریت کے بخار نے مجبور کر رکھا تھا۔ وہ مسلمانوں سے اکثریت کی بنیاد پر ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ اس لیے سیکولرزم اور متحدہ قومیت کے پرچارک تھے۔ہنددئوں نے تحریک پاکستان کے دوران متحدہ قومیت کا بیانیہ عام کیا۔ گانگریسی مسلمانوں نے بھی دو قومی نظریہ کی حمایت کی۔ دیو بند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی نے تو ایک کتاب بھی متحدہ قومیت پر تصنیف کر دی تھی۔یہ تو مولانا سید ابواعلیٰ موددی تھے کہ قومی نظریہ پر مضامین لکھ کر متحدہ قومیت کے نظریہ کے بیانیہ کو رد کیا۔ آل انڈیامسلم لیگ نے سیدموددی کے دو قومی نظریہ پر مضامین برصغیر میں پھیلائے۔ یہ مضامین اب بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔یہ شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال کے اس شعر کی تفسیر ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہا شمی ۖ۔

پھر اللہ کی مشیعت کے تحت دنیا کے نقشے پر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ظہور پذیر ہوا۔ اگر ہم اس موقعہ پر پاکستان کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے جو تاریخ بیان کی تھی پاکستان کے عوام کے سامنے پیش کریں تو، بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے انگریزوں اور ہنددئوں کی چالوں سے مسلمانا ن ہند کو بر وقت خبر دار کیا ۔آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ پٹنہ ٢٦ دسمبر ١٩٣٨ء کو مسلمانوں کو پیغام دیتے ہوئے قائد نے کہا کہ”ابھی آپ کوقومیت اور قومی انفرادیت پیدا کرنی ہے۔یہ بڑا کام ہے اور ابھی آپ نے اِسے شروع کیا ہے جو ترقی ہو چکی ہے وہ معجزے سے کم نہیں۔لیکن اس کے باوجود ہنوز کام کا آغازہے” قائد نے٢٢ مارچ ١٩٣٩ء کو کہا”تم دونوں ”ہندواور انگریز”متحد ہو کر بھی ہماری کو فنا کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔تم ایس تہذیب کو کبھی مٹا نہیں سکو گے جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ہمارا نور ایمان زندہ ہے۔ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا” پھر قائد کے دو قومی نظریہ کے سامنے ہنددئوں کے متحدہ قومیت کے بیانیے نے شکست فاش کھائی اور دنیا۔

تاریخ برصغیر کے مطالعے سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ہندو لیڈروں نے تقسیم ہندکو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا۔ تقسیم ہند کے دوران ہندئو لیڈروں نے ایک پلان بنا یا تھا۔جب قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر کمان دوقومی نظریہ پر مسلمان متحد ہو چکے اور ہر طرف پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ’ کا مستانہ نعرہ برصغیر کی فضائوں میں گونج رہا تھا۔پاکستان بننے جارہا تھا۔ اور ہندئو مجبور ہوگئے تھے۔ تو انہوں نے پلان بنایا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد دوقومی نظریہ کو کمزور کر کے پاکستان کو دوبارہ بھارت میں شامل کر لیں گے۔ بھارت کے اس پلان کا توڑ پاکستان میں لا الہ الااللہ کی بنیاد پر اسلامی نظام حکومت قائم کرنا تھا۔ پاکستان تو بن گیا اور قائد اعظم کو پاکستان میں لا الہ الا اللہ کا رنگ بھرنے کا موقعہ نہ ملا ۔ اللہ نے قائد اعظم کو اپنے پاس بلا لیا۔ اور بعد کے لوگ بھی پاکستان کی اساسی بنیاد سے منحرف ہو گئے۔ بھارت جو قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان کوختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب میں مبتلا ہے۔ اپنے پلان پر عمل کرتے ہوئے، کانگریس کے دور حکومت میں مشرقی پاکستان کو قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی نفی کرتے ہوئے غدار پاکستان مجیب کے ساتھ مل کر بنگلہ قومیت کی بنیاد پر فوجی مداخلت سے الگ کر دیا۔ اُس وقت بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بڑے غرور سے بیان دیا تھا کہ” میں نے قائداعظم کے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔

مسلمانوں سے ہزار سالہ حکومت کا بدلہ بھی لے لیا ہے”۔مگر پاکستان کے مقتدر حلقوں کو اس وقت بھی خیرت نہیں آئی۔ اور پاکستان کی بنیاد پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ کے تحت ملک میں اسلامی نظام حکومت رائج نہیں کیا۔بلکہ بھارت سے مار کھانے کے بعد بھی پاکستان میں دہشت گرد الطاف اور دوسرے قوم پرست لوگوں کو قومیت اور لسانیت کا زہر پھیلانے کا موقعہ دیتے رہے۔ اس کے برعکس اِس وقت بھارت میں مسلمانوں کے اعلانیہ دشمن، دہشت گرد اور ہندوتوا کی پرچارک والی ہندئو تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن نریندرموددی بھارت کے حکمران ہیں۔ موددی نے بنگلہ دیش میں بین لااقوامی اصلوں کی پروا کیے بغیر اعلان کیا کہ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے۔ اب بھی موددی پاکستان کو سبق سکھانے کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ بھارت میں جنگی ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔اس کے وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ بھارت نے پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے اب دس ٹکڑے کریں گے۔

بھارت کے یوم آزادی کے موقعہ پر موددی نے کہا کہ مجھے بلوچستان اور گلگت بلتستان سے مدد کے لیے ٹیلیفون کال آرہی ہیں۔ بھارت افغانستان کی امریکی پٹھو قوم پرست حکومت کی مدد سے اور ڈارئیکٹ اپنے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان کو توڑنے میں اب بھی ملوث ہے۔ اس کا ثبوت بھارتی نیوی کا حاضر سروس گلبوشن یادیو ہے۔جو پاکستان کے پاس موجودہے۔موددی اپنی دھمکیوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دفعہ پاکستان پر ہوائی حملہ بھی کر چکا ہے۔ گو کہ دوسرے ہی دن پاکستان کی فضایہ نے بھارت پر جوابی حملہ کیا۔ موددی نے منہ کی کھائی۔ تین ہوائی جہاز پاکستان کی فضایہ نے مار گرائے۔ ایک ہوائی جہاز پاکستان میں گرا اور پائلٹ گرفتار ہوا ۔دو ہوائی جہاز بھارتی حصہ میں گرے۔پائلٹ بھی جہازسمیت غرق ہوئے۔ بھارت نے ایل او سی پر بے اشتعال جاری فائرنگ میں اب کلسٹر بم استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔کشمیر میں جاری تکمیل پاکستان جنگ آزادی کو دبانے کے لیے آٹھ لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے، مذید اسی ہزار فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ بھارت کے آئین میں پہلے سے موجودکشمیر کی خصوصی دفعات ٣٧٠ اور ٣٥ اے کو ختم کرنے کے لیے لوک سبھا میں بھارت کے وزیر داخلہ نے بل پیش کر دیا ہے۔

کشمیر میں جاری نسل کشی پر،کشمیر کے نوے سالہ قائد سید علی گیلانی صاحب نے دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کر دی ہے کہ بھارت ہمیں ختم کرنے کے لیے آخری وار کرنے کی شروعات کرنے والا ہے۔ اگر بھارت نے ہمیں ختم کر دیا اور آپ ہماری مدد کے لیے نہ پہنچے تو آخرت میں اللہ کے سامنے کیا عذر پیش کرو گے؟۔ان حالت میں دونوں طرف بھارت اور پاکستان میں اپنی اپنی سلامتی کے اداروں کی میٹنگیں بھی منعقد ہوئیں۔پاکستان نے دوست ممالک اور او آئی سی اور اقوام متحدہ کو پوری طرح حالات سے آگاہ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ پاکستان نے کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی مدد کا اعلان کیا۔مگر کیا پاکستان ایسے ہی کمزور مؤقف پر کب تک چلے گا۔بھارت نے شملہ معاہدے کی خلاف دردی کرتے ہوئے سیاچین پر قبضہ کیا۔ جب ڈکٹیٹر مشرف نے اس کا بدلہ لینے کے لیے کارگل پر قبضہ کر کے سیاچن کا راستہ بلاک کر دیا۔ تو پاکستان کی بودے حکمران نے اپنی ذاتی دشمنی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے الٹا ڈکٹیٹر مشرف اس کو سزا دینے کی باتیں کیں۔اس سے قبل جب کشمیر میں تحریک تکمیل پاکستان کی جنگ آزادی زروں پر تھی۔ حزب مجائدین کے سید صلاح الدین صاحب نے پاکستانی مقتدر حلقوں سے ملاقات کر کے کہا تھا کہ بھارت سے مشرقی پاکستان کا بدلہ لیتے ہوئے ہم نے مقبوضہ کشمیر میں مشرقی پاکستان سے کئی گنا زیادہ حالات خراب کر دیے ہیں۔ ہم توگوریلہ لوگ ہیں علاقوں پر قبضہ نہیں کر سکتےَ۔

پاک فوج آگے بڑھے اور کشمیر پر قبضہ کر لے۔مگرانہیں جواب دیاگیا کہ اس طرح بھارت سے جنگ چھڑ جائے گی۔دوسری طرف جب مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان کے حالات خراب کیے اور مجیب کی شہ پرمشرقی پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے ایسی بزدلی تو نہیں دکھائی تھی؟۔ اب بھی بھارت جنگ چھیڑنے کا بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ اگر ہمارے مقتدر حلقے اس چیز کو سمجھ جاتے کہ بھارت تو پاکستان کو ختم کرنے کے ڈکٹرائین رکھتا ہے تو اُس وقت سنہری موقعہ ضائع نہ کرتے۔ یاد رکھیں بھارت سے معزرتانہ رویے رکھ کر نہ پہلے حکمران صحیح راستے پر تھے اور نہ اب ہیں قائد اعظم کے بنیادی اساس پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والی عمران خان حکومت صحیح ہے۔ایٹمی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھارت کو اعلانیہ بتا دینا چاہیے کہ آپ پاکستان کو ختم کرنے کے اپنے ڈکٹرائین سے رجوع کریں۔ کشمیر کو آزادی دے کر تقسیم ہند کے بین الااقومی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نا مکمل ایجنڈے کو پورا ہونے دیں۔ آپ بھی اور ہم بھی ایک اچھے پڑوسی کی طرح رہیں۔ یاجس طرح بھارت اپنی عوام کو پاکستان کو ختم کرنے کی تیاری پر لگایا ہوا ہے۔ اسی طرح مسلمانان پاکستان کو اعلانیہ جہاد فی سبیل اللہ پر تیار کریں۔ اس بیانیے کو دنیا میں سفارتی طریقے سے پھیلائیں۔ یاد رکھیں بھارت تار عنکبوت ہے۔ جب پاکستان اُسے للکارے گا وہ اپنی اصل جگہ پر پہنچ جائے بگا۔ یہ ہی دنیا میں زندہ رہنے کا وطیرہ ہے۔

دوسری طرف ہم پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو خاص طور پر اور دنیا کے مسلمانوں کوعمومی طور واضع کر رہے ہیں کہ ایٹمی اور میزائل طاقت، مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلامی دنیا کا فطری رہبر بھی ہے اس وقت مشکل میں ہے۔پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی سیاست کو اس وقت ایک طرف رکھ دیں۔بھارت پاکستان کے خلاف جاری، گریٹ گیم جس میںپاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے ، اسے تنہا کرنے اور اس کے اسلامی اور ایٹمی طاقت کو ختم کرنے کے پروگرام سے فاہدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس سال پاکستان کی آزادی کے موقعہ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اسلامی دنیا نے اس وقت پاکستان کی مدد نہ کی تو تاریخ مسلمانوں کو معاف نہیں کرے گی۔ پہلے سے تباہی میں گہری ہوئی مسلمان قوم مذید تباہی کے گھڑے میں گر جائے گی۔ اللہ پاکستان اور امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان