تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی آج کا دن (14 اگست) پاکستان کے مسلمانوں کے لئے خصوصی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر ایک یادگار اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ چودہ اگست 1947 کو واحد اسلامی ملک پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آیا۔
دنیا میں انسان کو سب سے زیادہ دوچیزیں عزیزہوتی ہیں ایک جان دوسری اولاد،یہ بات توکسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وطن عزیزملک پاکستان کے حصول کی خاطرہمارے اسلاف (بزرگوں) نے اپناتن من دھن سب کچھ نچھاورکیا۔قیامِ پاکستان کے وقت دی جانے والی قربانیوں کاہم بغورمطالعہ کریں تودل خون کے آنسوروتاہے ۔جب مسلمان، انگریزکے غلام تھے ۔کیونکہ غلامی غلامی ہوتی ہے چاہے ایک لمحہ کی بھی کیوں نہ ہو؟
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبریں جو ہو ذوقِ یقین پیداتوکٹ جاتی ہیں زنجیریں
اللہ پاک اوراس کے محبوبۖ کا فضل وکرم ہوامسلمانوں کے آپس میں باہمی اتفاق واتحاداورقائداعظم محمدجناح کے خلوص کی وجہ سے یہ عظیم اسلامی سلطنت دنیاکے نقشے پروجودمیں آئی۔ہندوئوں نے بڑی بڑی مکاریاں کی مختلف حربوں سے پاکستان کی مخالفت کی انگریزوں نے بھی کوئی کسرروانہ رکھی بلکہ ہرقسم کی رکاوٹیں پیداکیں۔ بہرحال ان کی مخالفتوں اوررکاوٹوں سے بنتاکیا۔کیونکہ
مسلمان آپس میں متحدتھے ۔رحمت ِ خداوندی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندرکواپنا اوڑھنابچھونابنائے ہوئے تھے ۔حالانکہ پاکستان اورمسلمانوں کے حریف توبہت تھے لیکن ان کوپتانہ تھاکہ مسلمانوں کی غیبی مددکی جارہی ہے۔نصرت ِ الٰہی سے پاکستان بن کررہناتھااوربن کرہی رہاان شا ء اللہ قیامت تک قائم ودائم رہے گا۔اس وقت مسلمانوں کامطالبہ حق اورصداقت پرمبنی تھا۔اِس لئے حق آگیااورباطل مٹ گیا۔دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے ۔ بندہ مومن کاکام ہے ارادہ کرنااس کوپھل لگانامیرے اورتمہارے خالق اللہ رب العالمین کے ذمہ کرم ہے۔شاعرنے کیاخوب کہا
ہم توتقدیرکے بندے ہیںہمیں کیامعلوم کون سی بات میں کیامصلحت یزداں ہے اورپھراپنی شکایت سے بھی کیاہوتاہے وہی ہوتاہے جومنظورِ خداہوتاہے
وطن ِ عزیزکی بنیادیں استوارکرنے کے لئے متحدہ مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ ،گوشت گارے کی جگہ ،اورخون پانی کی جگہ استعما ل ہواہے۔جن کی عظیم قربانیوں کے بعد وطن عزیزپاکستان کاقیام وجودعمل میں آیا ۔بالآخر14اگست 1947کوپاکستان بن گیا۔ شاعر مشرق علامہ محمداقبال حکیم الامت کاکرداراداکرتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کوایک کھویاہوامقام حاصل کرنے کاپیغام دیتے رہے۔
Allama Muhammad Iqbal
علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں اپنے خطبہ الہ آبادمیںبرصغیرکے مسلمانوں کے سامنے ایک الگ مملکت کاتصورپیش کیا۔انہوں نے کہاکہ مسلمان اور ہندومذہب درحقیقت دومختلف اورجداگانہ تمدن ہیں۔اوران کے لئے لازماَایک علیحدہ ملک اورریاست کی ضرورت ہے۔قیام ِپاکستان کی راہ میں حائل ہونیوالی باقی مشکلات پرقائدملت اسلامیہ قائداعظم محمدعلی کی منفردقیادت نے اکیلے قابوپالیا۔کیونکہ مسلمان قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوچکے تھے۔اورہمہ تن آزادی کی جدوجہدمیں مصروف تھے ۔مسلمانوں کوبھی اپنے قائدپرپورااعتمادتھاکہ ہماراقائدکسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گا۔اس وقت وطن عزیزکانام برطانیہ میں زیرتعلیم ایک مسلمان نوجوان چودھری رحمت علی نے”پاکستان ”تجویز کیا تھا۔
23مارچ1940ء کومسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں علیحدہ ریاست کی تجویزسامنے آئی۔یہ اجلاس اُسوقت لاہورکے ”منٹوپارک” جسے آج کل” اقبال پارک” کے نام سے پکارا جاتاہے میں منعقدہواتھا ۔جہاں پرمسلم لیگ کی جانب سے ایک قراردادمنظورکی گئی ۔جسے ”قراردادلاہور”کے نام سے مٔوسوم کیاگیاتھا۔اس قراردادمیں یہ اعلان کیاگیاتھاکہ مسلمان ہنداپنے مخصوص فلسفۂ زندگی ،سماجی روایات اورمذہب کی بنیادپرہندوئوں سے الگ اورمستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس تاریخی ،مذہبی اورسماجی تشخص کوبرقراررکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست قائم کی جائے”۔1942ء تک اس قرارداد کو”قراردادلاہور”ہی کہاجاتارہا۔لیکن بعدمیںغیرمسلم اخبارات نے اسے ”قراردادپاکستان ”کانام دے دیااوراس کی سخت مخالفت کرناشروع کردی۔یکم مارچ 1942کوقائدملت اسلامیہ قائداعظم محمدجناح نے اسلامیہ کالج لاہورکے وسیع وعریض میدان میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ”ہم نے ”قراردادلاہور” کو”قراردادپاکستان ”کانام نہیں دیاتھالیکن اگرہمارے دشمن ہمیں چڑانے کے لئے اس نام کواستعمال کررہے ہیں۔توہم اس سے چڑیں گے نہیں بلکہ اب اسے ”قراردادِ لاہور”کی بجائے ”قراردادپاکستان ”کے نام سے پکاریں گے۔
وطن عزیزپاکستان جس کی عظمت کوآج پوری دنیامانتی ہے ۔اس لئے ہمیں بھی وطن سے محبت کرنی چاہیے ۔اس کے بانی سے عقیدت اوراس کے مصوّرسے دل لگائورہناچاہیے ۔کیونکہ جس وطن عزیزکے قیام کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی بے شمارقربانیاں پیش کیں۔اتنی گراں قدرتخلیق کااندازہ تو وہی لگاسکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں اپنے تن من دھن قربان کیاہو۔بس ہم نے تویہی سوچ رکھاہے جیسے باپ داداکی وراثت میں یہ وطن عزیزملاہو۔حالانکہ پاکستان کے حصول کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے شہادت کاجام نوش کیا۔کتنی مائوں کے سامنے ان کے بچے قتل کیے گئے۔جوساری عمراپنے والدین کی شفقت کے لئے ترستے رہے ہوں گے۔بے بسوں کے سامنے ان کے خاندانوںکے افراد کوکمروں میں بندکرکے نذرآتش کیاگیا۔ہزاروں عصمتیں لٹنے ،لاکھوں گھراجڑنے کے بعد پاکستان بنا۔
زندہ آزادومختارقومیںہمیشہ اپنے وطن سے کھل کرمحبت اوراپنی آزادی کاجشن بھی شایان شان طریقے سے مناتی ہیں۔کیونکہ آزادی کی خوشیاں مناناان خوشیوں میں شریک ہوناان کی رونقیں دوبالاکرنایقینازندہ اورمحب وطن قوموں کاشیوہ ہے۔خالق کائنات مالکِ ارض وسماوات قرآن مجیدمیں بھی ہمیں یہی حکم دیتاہے کہ جب بھی کسی نعمت کاتم پرحصول ہوتواس پرخوب خوشی کااظہارکرو۔یعنی کہ سجدہ تشکربجالائو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”اگرتم میراشکراداکروگے تو میں
تمہیں اور دونگااوراگرناشکری کروگے تومیراعذاب سخت ہے”۔
قیام پاکستان سے قبل پورے برصغیرپرانگریزوں کاقبضہ رہاہے ۔حالانکہ انگریزوں کے قبضہ سے پہلے مسلمانوں کی حکومت تھی ۔جب انگریزقابض ہوئے تومسلمان غلامی کی زندگی بسرکرنے لگے ۔مسلمانوں پرطرح طرح کے ظلم وستم ہونے لگے۔بالآخرمسلمانوں نے متحدہوکرمسلسل دن رات محنت کی ۔جوشخص جتنی محنت کرتاہے اس کاپھل اللہ پاک اس کو ضرور عطاکرتاہے۔مسلمانوں کی دن رات مسلسل محنت رنگ لے آئی اوراللہ پاک نے آج کے دن یعنی 14اگست1947کومسلمانوں کوانگریزوں کی غلامی سے نجات بخشی۔اورا سطرح مسلمان اپناالگ وطن ملک پاکستانِ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
دوستو!وطن عزیز پاکستان کی آزادی اللہ تعالیٰ کی کسی بڑی نعمت اورفضل وکرم سے کم نہیں ۔کیونکہ اللہ رب العالمین نے 14اگست1947کے دن مسلمانوں کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلاکرانہیںایساخطہ ارض ِ پاک عطاکیاجوہرقسم کے معدنی وسائل سے مالامال ہے۔قدرت نے پاکستان کوہرنعمت سے نوازاہے۔جس کی وادیاں اپنے اندررعنایاں لیے ہوئے ہیں۔دریائوں ،ندیوں،نالوں کی عرفات ہے۔جس سے زمینوں کوسیراب کیا جارہاہے۔ہرے بھرے اوروسیع وعریض کھیت سونااُگل رہے ہیں۔اللہ کے فضل وکرم اوربرزگوں کی قربانیوں کے بعدہمیں ہرقسم کی آزادی اورہرقسم کاسامان عیش وعریش کے لئے میسرہے ۔ملک کے اندربسنے والے ہنرمندہیں۔تجارتی،زرعی،صنعتی اوردیگرمیدانوں میں اپنا لوہا منوا کر ترقی کر رہے ہیں۔ جب کہ جنگی میدان میں بھی اپنی مہارت منواچکے ہیں ۔منوارہے ہیں اور منواتے رہیں گے۔
Pakistan
ملک پاکستان ہماراوطن ہے۔وطن اس جگہ یامقام کو کہتے ہیں جہان انسان اقامت پذیرہوتاہے۔جب انسان کسی جگہ پراپنی قیمتی زندگی کاکچھ اہم حصہ گزارلیتاہے ۔توانسان کواس جگہ سے فطری طورپرمحبت ہوجاتی ہے۔پھرجب کسی مجبوری کے تحت انسان اس سرزمین سے جداہوتاہے تواس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جلدسے جلداپنے وطن یعنی پہلی منزل تک پہنچ سکوں ۔اس بات میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ اس کاثبوت حدیث نبویۖسے ملتاہے ۔ اللہ کے محبوب دانائے غیوب ۖنے ارشادفرمایا”حب الوطن من الایمان””وطن کی محبت ایمان کاحصہ /علامت ہے”۔جب آپ ۖمکة المکرمہ سے ہجرت فرمانے لگے تواس وقت آپۖکی کیفیت کایہ عالم تھا۔حضرت عبداللہ بن عدی بن حمرائ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہۖکومقام حزورہ پرکھڑے ہوکرفرماتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم!اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کی ساری زمین سے بہتراوراللہ تعالیٰ کوساری زمین سے زیادہ محبوب ہے اگرمجھے تجھ سے نکل جانے پرمجبورنہ کیاجاتاتومیں ہرگزنہ جاتا(ترمذی ،ابن ماجہ) ابن شہاب فرماتے ہیں۔
حضرت اصیل غفاری حضورۖکی ازواج مطہرات پرحجاب فرض ہونے سے پہلے ام المومنین سیدتناعائشة الصدیقہ کے پاس تشریف لائے توآپ نے حضرت اصیل غفاری سے پوچھامکہ مکرمہ کو کیساپایا۔توآپ نے بعض اوصاف بیان فرمائے ۔پھرآپ ۖآئے اورآپ ۖنے پوچھامکہ مکرمہ کوتم نے کیساپایاتوآپ نے کچھ اوصاف بیان فرمائے توآپۖدل برداشت ہوئے اورفرمایا”اصیل بس کروہمیں مکہ شریف کے اوصاف بیان کرکے غمزدہ نہ کرو”۔جب آپ ۖمکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اورمدینہ منورہ کواپنامسکن بنایااس وقت آپۖمدینہ منورہ سے سفرکے لئے باہرنکلتے اورواپس پھرمدینہ منورہ آتے آپۖکی کیفیت کایہ عالم ہوتا ؟سیدناانس فرماتے ہیں جب آپۖکسی سفرسے آتے تومدینہ شریف کی اونچی سڑکیں اورمنزلیں دیکھ کرخوش ہوتے اوراونٹنی تیزی سے اس کی طرف دوڑادیتے تھے اوراگرکوئی دوسراجانورہوتاتواس کوحرکت دیتے”۔بخاری شریف سیدنابلال حبشی کے بارے میں آتاہے کہ مکہ مکرمہ کویادکرتے اورکہتے کہ کوئی مجھے حوصلہ ہی دے دے کہ میں پھرمکہ مکرمہ جائوں گااورفلاں فلاں کنوئیں سے پانی پیوں گا۔حالانکہ سیدنابلال حبشی کامکہ مکرمہ اصل وطن بھی نہ تھا۔لیکن پھربھی جتنی زندگی مکہ مکرمہ میں گزاری زندگی کے ان دنوں کوبھولناگوارانہ کیااورمکہ مکرمہ سے جدائی کاافسوس رہا۔اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام مصرکے بادشاہ تھے لیکن ان کادل ہروقت اپنے وطن کنعان کی محبت میں دھڑکتا رہتا تھا۔
وطن پرفداہرمسلمان ہے کہ حبِ وطن جزوِایمان ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے پتاچلاکہ وطن سے محبت کرنادرست ہے ۔انسان کووطن سے محبت کرنی چاہیے۔وطن پرست نہیں ہوناچاہیے۔کیونکہ وطن سے محبت اورایمان کے درمیان تلازم نہیں ۔اسی طرح ایسابھی نہیں ہوسکتاکہ وطن سے محبت ہومگرایمان کاوجودبھی نہ ہو۔جیسے کفارومشرکین کوصرف وطن سے محبت ہوتی ہے ان کے دل ایمان سے توخالی ہوتے ہیں۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں وطن کی محبت پائی جائے وہاں ایمان کاہوناضروری ہے۔انسان کواصل اورحقیقی محبت اللہ اوراس کے رسول ۖسے ہونی بے حد ضروری ہے۔کیونکہ جس کے دل میں اللہ اوراس کے محبوبۖکی محبت نہیں اس کاکوئی وجودنہیںچاہے وہ جس سے محبت کرتارہے یاکوئی نیکی کرتارہے۔جس طرح ہرچیزکی کوئی نہ کوئی بنیادہوتی ہے ۔دین اسلام کی بنیاداللہ اوراس کے رسولۖکی محبت ،اتباع،پیروی میں ہے۔حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہۖنے ارشادفرمایا”تم میں کوئی مومن نہیں ہوتاجب تک میں اسے اس کے والداوراولاداورسب لوگوںسے زیادہ پیاراورمحبوب نہ ہوں”۔بخاری شریف یقینایہ بات توکسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ زندہ قومیںہمیشہ اپنے ذاتی اغراض ومقاصدکوپس پردہ ڈال کراپنے وطن سے کھل کرمحبت کرتی ہیں۔ تواِ س لئے ہرمحب وطن پاکستانی کایہ حق بنتاہے کہ اپنے پیارے وطن پاکستان سے محبت کرے ۔اوردوسرا ہمارایہ قومی اوراخلاقی فریضہ بنتاہے کہ ہم نئی نسل جوپاکستان کاقیمتی اثاثہ ہیں جنہوں نے اس وطن عزیزکی باگ دوڑسنبھالنی ہے اس لئے نئی نسل کوقیامِ پاکستان کے لئے دی جانیوالی قربانیوں سے روشناس کراناان کی یادتازہ کرناہماراملی فریضہ ہے۔کیونکہ یہ بات ہرکسی پرروزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کاثمرہے اگرہمارے بزرگ یہ قربانیاں نہ دیتے توشایدآج بھی ہم آزادنہ ہوتے؟تحریک پاکستان میں صرف مردنہیں بلکہ خواتین کاکرداربھی ہماری تاریخ کاسنہری باب ہے۔
آج بھی ملکی درپیش مسائل اورچیلنجزسے نجات حاصل کرنے کاواحدذریعہ ہمیں قیامِ پاکستان اور1965ء کی جنگ آزادی والاجذبہ اپننے اندرپیداکرنا ہوگا۔کیونکہ وطن عزیزپاکستان اسلامی ریاست اورایٹمی طاقت ہونے کے باوجودبے شمارمسائل اورتنزلی کاشکارہے۔جن سے نجات کاواحدذریعہ مخلص قیادت کاچنائواور نوجوانوں میں بالخصوص قیام ِپاکستان والاجذبہ بیدارکرنا ہو گا۔
اعلیٰ حضرت مجدددینِ وملت الشاہ امام احمدرضاخان نے سب سے پہلے67سال کی عمرمیں دوقومی نظریہ پیش کیااوردنیاپرواضح کیاکہ ہندوالگ قوم ہے اور مسلمان الگ قوم ہے۔کیونکہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی الشاہ امام احمدرضاخان کی نگاہ برصغیرپاک وہنداوردنیاکی سیاست پربھی تھیں آپ نے برصغیرمیں اسلامی اقدارکوبرسرنوزندہ کرنے اورمسلمانوں کوان کی گمشدہ میراث واپس دلانے کے لئے بہت جدوجہدکی .آپ کے زندہ کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ تحریک آزادی کے علمبرداراور دوقومی نظریہ کے نقیب تھے اس لئے آپ نے تحریک عدم تعاون اورترکِ موالات کے زمانے میں متحدہ قومیت کے نظریے کوباطل قراردیااور مسلمانانِ برصغیرکوہندئووں اور انگریزوں کی سازشوںسے خبردارکیاآپ نے کبھی کسی انگریزیاہندوکی عدالت میں حاضری نہیں دی تھی حتیٰ کہ آپ ڈاک کاٹکٹ ہمیشہ الٹا چسپاں کیاکرتے تھے۔اس ٹکٹ کوالٹاچسپاںکرنے کی اہم وجہ یہ تھی کہ اس ڈاک کے ٹکٹ پرانگریزملکہ یابادشاہ کی تصویر ہواکرتی تھی۔
محسن ملت اسلامیہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان کے بارے میں فرماتے ہیں آج سے سوسال قبل جب انگریزہندوئوں کے ساتھ سازبازکرکے ہندکی معیشت پرقابض ہوئے تومسلمانوں کے تشخص اورتعلیمی نظام کوزبردست دھچکالگااستعماری طاقتوں کے مذموم عزائم کی بدولت مذہبی قدریں زوال پذیرہونے لگی تھیں اس پرآشوب دورمیں اللہ رب العزت نے برصغیرکے مسلمانوں کوامام احمدرضاجیسی باصلاحیت اورمدبرانہ قیادت سے نوازاکہ جن کی تصانیف،تالیفات اورتبلیغی کاوشوں نے شکست خوردہ قوم میں ایک فکری انقلاب برپا کردیا۔امام صاحب کی شخصیت جذبہ عشق رسول ۖ سے لبریزتھی۔آپکی ساری زندگی کومدنظررکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ کی ذات نبی کریم ۖ کے ساتھ وفاشعاری کانشان مجسم تھی آپ کی ہمہ جہت شخصیت کاایک پہلوسائنس سے شناسائی بھی ہے سورج کوحرکت پذیراورمحوگردش ثابت کرنے کے ضمن میں آپ کے دلائل بڑی اہمیت کے حامل ہیں آج جبکہ دوسری طرف ہمارادشمن ہمیں تباہ وبرباد کرنے کے لئے گھات میں بیٹھاہے۔تومیں سمجھتاہوں کہ امام صاحب کی تعلیمات سے بہرورہوکرہم آج بھی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیواربن سکتے ہیں مصورپاکستان ڈاکٹرعلامہ اقبال فرماتے ہیں ؛ہندوستان کے دورآخرمیں ان جیساطبّاع اورذہین فقیہ پیدانہیں ہوا۔میں نے ان کے فتاوٰی کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے ۔ان کے فتاوٰ ی ان کی ذہانت ،فطانت،جودت طبع،کمال ثقاہت اورعلوم دینیہ میں تبحرعلمی کے شاہدعادل ہیں۔
مولاناایک دفعہ جورائے قائم کرلیتے اس پرمضبوطی سے قائم رہتے تھے ۔یقیناوہ اپنی رائے کااظہاربہت غوروفکرکے بعدکیاکرتے تھے۔لہذا انہیں اپنی شرعی فیصلوں اورفتاوٰی میں کبھی کسی تبدیلی یارجوع کی ضرورت نہیں پڑی ۔(حوالہ ہفت روزافق کراچی 22تا28جنوری 1979) تحریک پاکستان میں علماء دیوبندمیں مولاناشبیراحمدعثمانی نے قیام ِپاکستان کے لئے انتھک جدوجہدکی۔لیکن دارالعلوم والوں نے جوان کے ساتھ حال کیاوہ ان کی کتاب مکالمة الصدرین میں موجودہے۔یہ ایک طویل فہرست ہے جس کی یہ مضمون گنجائش نہیں رکھتااوراس مضمون میں کسی کی دل آزاری کرنامناسب نہیں سمجھتا۔اس لئے اپنے مضمون کااختتام اس بات پرکرتاہوں کہ ہمیں اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم جشن ِ آزادی گلی گلی،کوچہ،کوچہ ،نگرنگر،قصبہ ،قصبہ میںشان وشوکت سے مناکرملک دشمن قوتوں کویہ پیغام دیں کہ ہم مردہ نہیں بلکہ زندہ قوم ہیں۔جوہمارے وطن کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے گااس کواینٹ کاجواب پتھرسے دیاجائیگا۔ کیونکہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی بنیاد اینٹ گارے سے نہیں بلکہ اپنے خون اور ہڈیوں سے رکھی تھی اور یہ ملک خداداد پاکستان کلمہ لا الہ الااللہ کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا اور یہی نظریہ پاکستان ہے آج ہمارے دشمن اس نظریہ کو ملیا میٹ کرنے کے ایجنڈے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس وقت تقاضا دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہے نا کہ اس کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کا۔ جب تک ہم اپنے اختلافات بھلا کر باہم متحد ہوکر جدوجہد نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے دشمن ہم پر مسلط بھی رہیں گے اور ہماری بنیادیں بھی کھوکھلی کرتے رہیں گے۔آج کے دن خصوصاًبالخصوص وطنِ عزیزکی خاطراپنی قیمتی جانوں کانذرانہ پیش کرنیوالوںکی یادتازہ کرکے ان کوخراجِ تحسین اوربلندی درجات کے لئے دعاکریں ۔اللہ پاک وطن عزیزپاکستان کودن دگنی رات چوگنی ترقیاں عطا کرے۔آمین
Hafiz Kareem Ullah Chishti Pai Khel
تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی 03336828540 kareemullah786@gmail.com