بیلاروس (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقی یورپی ملک بیلاروس میں صدر لوکاشینکو کے 26 سالہ اقتدار کو اب تک کی سب سے بڑی عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔
بیلاروس میں نو اگست کے صدارتی انتخابات میں مبینہ حکومتی دھاندلی کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ روزانہ کے مظاہروں کے بعد اب ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
پیر کو دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ سرکاری ٹی وی چینل کے ملازمین نے بھی واک آؤٹ کیا۔ نتیجتاﹰ ٹی وی چینل کی صبح کی نشریات کے دوران سیٹ پر خالی کرسیاں دکھائی جاتی رہیں اور پیچھے پاپ میوزک بجتا رہا۔
اس سے قبل اتوار کو دسیوں ہزار لوگوں نے دارالحکومت منِسک کی سڑکوں پر صدر الیکسزانڈر لوکاشینکو کے خلاف ریلی نکالی۔
مبصرین کے مطابق یہ ایک تاریخی ریلی تھی۔ مظاہرین نے سفید و سرخ پٹیوں والے پرچم اور غبارے اٹھا رکھے تھے۔ لوگوں نے ہارن بجا کر اور نعرے لگا کر صدر لوکاشینکو کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ حالیہ دنوں کی پر تشدد جھڑپوں کے برعکس یہ ریلی پرامن رہی۔
ادھر حکومت نے بھی گذشتہ روز صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کے حق میں ایک جلسہ منعقد کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق سرکاری جلسے کے لیے لوگوں کو بسوں میں بھر کر لایا گیا لیکن پھر بھی یہ اجتماع قدرے چھوٹا رہا۔
اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر لوکاشینکو نے دعویٰ کیا کہ ملک کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اس لیے دوبارہ انٹخابات کرانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ آئینی اصلاحات کے لیے تیار ہیں لیکن کسی کے دباؤ میں آ کر ایسا نہیں کریں گے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نیٹو ممالک بیلاروس کی سرحدوں پر ٹینک اور لڑاکا جہاز تعینات کر رہے ہیں۔ صدر لوکاشینکو نے اپنے حمایتیوں سے کہا کہ ملک کی سلامتی کو خطرات ہیں اور لوگوں کو اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا ہوگا۔ یورپی یونین اور نیٹو ممالک نے خطے میں ایسی کسی فوجی نقل و حرکت سے انکار کیا ہے۔
بیلا روس کو یورپ کی آخری آمریت بھی کہا جاتا ہے۔ صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سویت ریاست کے حاکم چلے آ رہے ہیں۔ ان برسوں میں صدر لوکاشینکو نے چھ بار مسلسل انتخابات جیتے ہیں اور ہر بار اپنے مخالفین کا تقریباﹰ صفایا کردیا۔
دارالحکومت مِنسک میں حکام کے مطابق اس بار بھی اتوار نو اگست کو ہونے والی ووٹنگ میں انہیں 80.1 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مدمقابل خاتون امیدوار سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 10.12 فیصد ووٹ آئے۔ مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی کئی مقامات پر دھاندلی کا سہارا لیا گیا۔
بیلاروس میں انسانی حقوق کی بے دریخ پامالیوں کے خلاف یورپی یونین کی طرف سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ صدر لوکاشینکو کی حکومت کی سرزنش کی جائے اور حکومت پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
برطانیہ نے ان انتخابی نتائیج کو مسترد کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ کھل کر ان حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرے۔ جرمنی کے وزیر خزانہ اولاف شُلز نے صدر لوکاشینکو کو ایک ‘آمر‘ قرار دیا، جو ان کے مطابق لوگوں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ یورپی یونین بیلاروس حکومت میں صدر لوکاشینکو کے قریبی ساتھیوں اور دیگر سینئر حکام پر پابندیاں لگانے کے حق میں ہے۔
اس بحران کے ابتدائی دنوں کے دوران صدر لوکاشینکو کے سب سے بڑے اتحادی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن خاموش رہے۔ لیکن پچھلے چند دنوں کے دوران جوں جوں صدر لوکاشینکو پر دباؤ بڑھتا رہا، دونوں رہنماؤں کے درمیان متعدد بار رابطہ اور مشاورت ہو ئی ہے۔ ماسکو نے صدر لوکاشینکو کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ اس بحران کے پیچھے بیرونی عناصر کارفرما ہیں۔
صدر لوکاشینکو نے اپنے تین مغربی ہمسایہ ممالک پولینڈ، لتھووینیا اور لیٹویا پر الزام لگایا ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی ممالک بیلاروس میں مداخلت سے باز نہ آئے تو روس بیلاروس سمیت چھ سابق سویت ملکوں کے فوجی اتحاد کو حرکت میں لا سکتا ہے۔