آزادی صحافت ک عالمی دن

Journalism Day

Journalism Day

مورخہ 3مئی کے دن دنیا بھر میں آزادی  صحافت کا دن منایا جا رہا ہے۔ لیکن آزاد ملک کے آزاد خیال لوگ ایک سوال ہر طبقہ سے کرتے نظر آتے ہیں کہ جہاں مہنگائی، کرپشن، غریبی اور خوف و دہشت کے بادل ہر سوء چھائے ہوں تو وہاں لوگ آزاد نہیں ہوتے تو یہ صحافت کیوں اور کیسے آزادی ہو سکتی ہے؟کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خدارا ہمیں کوئی یہ بتائے کہ صحافت ہوتی کیاہے۔آپ یقین کریں کہ لوگ یہ سوال اس لئے نہیں پوچھ رہے ہیں کہ انہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے کہ صحافت کیا ہے؟ بلکہ وہ صحافت کی نئی اصطلاح اور تعریف چاہتے ہیں۔

کیونکہ لوگ یہ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ وہ صحافت نہیں ہے جسے مختلف پہلوئوں اور اس کے مندرجات کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔ اور صحافت کو ماس کمیونیکشن سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ انسانی معاشرے میں صحافت کے کردار و اہمیت کی جب بات کی جاتی ہے تو اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر دماغ کے نہاں خانوں میں ضرور گونجتاہے۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
صحافت معاشرے کا آئینہ ہوتاہے اگر سچائی کے ساتھ کی جائے، ظاہر ہے کہ اگر سچائی کے ساتھ صحافت کی کارگزاری ہوگی تو یہ زمانے کی روش و رفتار اور عمرانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی رکھے گا۔ صحافی وہ طبقہ ہے جو حقائق تک پہنچنے کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے اور ان کے شانہ بشانہ کالم نویس بھی اپنی تحقیق سے ان کے ہم قدم رہتے ہیں۔

ایک خبر کی تحقیق کے لئے یہ صحافی اور کالم نویس کن کن مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں وہ اس شعبے سے وابستہ افراد ہی جان سکتے ہیں۔ پھر کہیں جا کر ایک خبر اور ایک کالم عوام تک پہنچایا جاتا ہے۔ آج ہم سب یہ دیکھتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے، کیا میڈیا کے ذریعے صحافی برادری جو پروان چڑھ رہے ہیں یا چڑھ چکے ہیں وہ بھی آزاد ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے بلکہ معمہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور اس پر لکھنے کا عمل شروع کیا جائے تو ایک الگ مضمون بن جائے گا۔ اور ہمارا مقصد کسی کی دل آزادی کرنا نہیں بس اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ صحافت کے پیشے کو بدنام ہونے سے بچا کے رکھیں تاکہ عوامی اعتماد کہیں تو بحال رہے۔

News Paper

News Paper

کسی بھی ملک میں جب قلمکاروں پر پابندیوں کا اطلاق کیا جاتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ یہی صحافی اور قلمکار لوگ اپنے خونِ جگر سے آزادی صحافت کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں ۔ مطبوعہ صحافت یعنی جرنلزم ایک نہایت مؤثر اور طاقتور ہتھیار ہے کیونکہ ان کے کندھوں پر ملکی اور قومی استحکام و سالمیت کے نقطۂ نظر سے اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ صحافت کی تمام اقسام میں مسائل کے بارے میں حقائق ثبوت کے ساتھ پیش کیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ قبولِ عام کی سند رکھتے ہیں۔ویسے بھی انسان فطری طورپرتجسس کا مادہ رکھتا ہے۔البتہ یہ مادہ صحافی اورقلمکاروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔اور اسی بناء پر خود کو باخبر رکھنے کے لئے اخبار پڑھنا زیادہ پسند کرتاہے۔

ابتدا میں تو صحافت صرف خبروں تک ہی محدود تھی جس میں آہستہ آہستہ اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق تبصرے،تجزیے، تجاویز اور آراء بھی شامل ہوتی گئیں،اسی وجہ سے صحافت کو سرکار، عدلیہ، اور انتظامیہ کے بعد ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتاہے۔اگر کوئی ایک بھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ نے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔اسی وجہ سے صحافت کی آزادی کو ایک آئینی حق قرار دیاگیاہے اور صحافت کے تمام ذرائع کو حق ہے کہ وہ حقائق کی پاسداری کے لئے کسی دبائو کے بغیر کام کریں کیونکہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا بھی جہاد ہے۔صحافت جہاں رائے عامہ کی تشکیل اور قومی شعور کو اجاگر کرنے کا انتہائی اہم ذریعہ ہے وہیں پر حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطے کا بھی ذریعہ ہے۔

جس کے ذریعے لوگ حکمرانوں اور انتظامیہ کا احتساب بھی کرتے ہیں اور فکری رہنمائی کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر ملکی یکجہتی سے اپنے دینی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ثقافت اور جمہوریت کو غیر جانبداری سے پیش بھی کرتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو آزادی اور قومی اتحاد کے لیے جد و جہد کا سہرا بھی اردو صحافت ہی کے سر ہے اردو کے اخبارات ہی نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس ہی اخبار کا صحافی اور مدیر مولوی محمد باقر جنگِ آزادی میں شہید ہوا۔اُس وقت اخبارات کے مدیران سب سے زیادہ سامراج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،لیکن اس یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ سنگین سے سنگین حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیاانہوں نے سیاسی بیداری اور تحریکِ آزادی کے ہر اوّل دستے کا کام بھی ڈٹ کر انجام دیا۔

Media

Media

آج صحافت اور خاص کرنئے قلمکاروں کا یہ حال ہے کہ انہیں اخبارات میں مناسب جگہ نہیں دی جاتی خاص کر بڑے اخباروں میں تو انہیں بالکل ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔نئے قلمکاروں کا یہ کہنا غلط نہیں کہ پرانے صحافی اور قلمکار ہماری سر آنکھوں پر مگر یہ نئے لکھنے والے بھی تو اسی ملک کے رہنے والے ہیں ، تو انہیں کیوں نظر انداز کیا جاتاہے۔کیا انہیں یہ بات یاد نہیں کہ ” نئے چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی”آج ہر جگہ بشمول میڈیا کے سفارش کا دور دورہ ہے ، یہ جملہ کچھ تلخ تو ہے مگر نئے قلمکاروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہاہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ انہیں اس کا جائز مقام نہیں دیاجاتا۔اخبارات میں بھی پرانے اور منجھے ہوئے قلمکاروں اور صحافیوں کو نمایاں مقام دیا جاتاہے بشمول کچھ مالی فوائد کے، مگر جو نئے لوگ ہیں انہیں اس سے بھی محروم رکھا جاتاہے۔

مالکان کو چاہیئے کہ نئے لکھنے والوں کی بھی مالی فوائد کے ساتھ حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض نبھا سکیں۔اداروں کا تعاون اگر صحافی اور قلمکاروں کے ساتھ مناسب طریقے سے ہو تا رہے تو کوئی بعید نہیں کہ یہ نوجوان صحافی اور قلمکار بھی آگے چل کر ملک و ملت کے لئے سرمایہ ثابت نہ ہوں۔بیسویں صدی کے پہلے اور دوسرے عشرے کی بے پایاں اور بے باک صحافت کے بعد مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات کا سلسلہ شروع ہوا تھا نہیں اپنی شعلہ بیانی اور شعری ادب میں منفرد اور نمایاں نام رکھنے پر ”بابائے صحافت” کے لقب سے یادکیا جاتاہے ، انہوں نے جنگِ طرابلس کے بعد اپنے والد کے روزنامہ ” زمیندار ‘ ‘ کو پندرہ اکتوبر1911ء میں اخبار کا درجہ دیا۔

مولانا نے اپنے اخبار کے ذریعے جو جہاد کیا وہ آزدی تک جاری رہا۔اُس وقت ایسی بے باک صحافت ہوا کرتی تھی جو آج کے صحافت سے بالکل الگ تھا۔اس لئے ان جیسے بابائے صحافت سے آج کے صحافت کا موازنہ کرنا درست نہیں ہوگا۔آج جس طرح کے حالات ملک میں ہیں اس کے باوجود سچ لکھنے اور بولنے والے قلمکار اور صحافی موجود ہیں، مگر پھر بھی اس امر کا شدت سے احساس پایاجاتاہے کہ میڈیا انہیں کوئی معقول مالی فوائد دینے کو تیار نہیں۔

آج لکھنے والوں کی کمی نہیں مگر سچ کے ساتھ لکھنا اس دور میں ناپید نظر آتاہے ایسے بھی کچھ پرانے اور کچھ نئے لوگ ہیں جو ”سچ ”لکھتے ہیں۔اس ضمن میں حکومت کا تعاون بھی ان صحافیوں اور قلمکاروں کے لئے بے حد ضروری ہے کیونکہ حقیقی صحافت کو پروان چڑھانا اور زرد صحافت سے نجات دلاناحکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔اس مقصد کا حصول یقینا صحافیوں اور قلمکار برادریوں کے بنیادی مسائل کو حل
کئے بغیر ممکن نہیں۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی