أزاد ہوتے پرندے

Night

Night

گزشتہ دو روز سے گھر میں زندگی کو قائم رکھنے کی جدوجہد جاری تھی۔ا س کی بیوی کی گود میں بخار سے سلگتا بچہ گھر کے اندر کے یخ بستہ موسم کی شدت کو کم کر نے کے لیئے ہیٹر کا کام دے رہا تھا۔ زندگی سے پیچھا چھڑاتی ماں مسلسل کھانسی سے سال نو کو مبارک باددے رہی تھی اور دلہن اپنے ارمانوں کی لاش کو خوشحال پاکستان کے کفن سے ڈھانپ کر اجتماعی موت کی منتظر بیٹھی تھی۔ اس گھر کا نوجوان سربراہ رات کے پچھلے پہر سے سورج جلد نکلنے کی شدید خواہش کے ساتھ چارپائی پر بڑے اضطراب سے پہلو بدل رہا تھا۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ انے والی رات شاید ان کے لیئے اخری رات ہو۔

وئہ اٹھا اور پرند وں کے پنجروں میں بانس ڈال کر کندھے پر رکھا اور گھر سے نکل پڑا۔جونہی اس نے دروازہ کھولا توبدن کو برف بناتی ہوئی ہوا نے اسے سلامی دی۔ایسے بے لگا م بادل اس سے پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔جو اس کی قسمت سے بھی زیادہ کالے اور ڈراونے تھے۔دھند کی وجہ سے انکھیں دیکھنے سے انکاری ہو رہیں تھیں۔ہلکی ہلکی بوندا باری بھی شروع ہو گئی جس نے موسم کو اور زیادہ ظالم بنا دیا۔لگتا تھا کہ موسم پوری دشمنی پر اتر ایا ہو۔ وئہ جلد از جلد چوک میںپہنچناچاہتا تھا۔

چوک پر پہنچ کر اس نے پرندوں کے پنجروںکو زمین پر رکھا اور خود پنجروں کے پیچھے بیٹھ گیا ۔سٹرک سے گزرنے والی گاڑیوں کو امید کی نظر سے دیکھتا کہ شاید اس سردی میں رکھے قیدی پرندوں یا انکے سا تھ رکھے انسانی حقو ق کے فخرپر ترس کھا کر کوئی بریک لگا دے۔،سارے پرندوں کو أزاد کرنے کا سہانا حکم جاری کرے کیونکہ پرندوں کو أزاد کرنے کے معاوضے سے ہی اس کے گھر والوں کی زند گی مشروط ہو چکی تھی۔سورج ایک دفعہ پھر بے وفائی پر اتر ایا اس نے ڈھلناشروع کر دیا ۔جوں جوںوقت کی مہلت ختم ہوتی جا رہی تھی اسی قدر اس کی مایوسی انتہاکو پہنچ رہی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وئہ پرندوں کے پنجروں پر زور زور سے ہا تھ مار کر انہیں احتجاج پر امادہ کرتا۔بھوکھے ،قیدی پرندے انسانی جانوں کو بچانے کی خاطرساتھ نبھا رہے تھے۔وئہ پورے زور سے غربت کے اس طالبان کی نشاندہی کر رہے تھے۔

Birds

Birds

اچانک ایک نئے ماڈل کی جیپ نے موڑ کاٹا اور زور دار بریک لگائی۔ اٹومیٹک شیشہ ادھا نیچے ہوا اندر بیٹھے شخص نے پرندوں کے پیچھے بیٹھے نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس کے دیکھنے کی دیر تھی۔ نوجوان خودکش حملہ أٔور کی طر ح گاڑی کی طرف بھاگا۔ گاڑی میں بیٹھے شخص نے اسمان کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ نوجوان تیزی سے مڑا۔ پنجروں کے دروازے کھول دیئے تھوڑی ہی دیر میں پرندے اڑ گئے اور پنجرے خالی ہو گئے۔ نوجوان نے جا کر ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ گاڑی میں بیٹھے شخص نے جیکٹ کے اندر سے نوٹوں کا بنڈل نکالا، اس میں سے ایک نوٹ اسمان کی طرف اچھال کر شیشہ بند کر دیا۔

نوجوان کے پاس مہلت ختم ہو رہی تھی اس نے فضا سے ہی نوٹ اچک لیا ،اس نے نوٹ دیکھ کر اپنی اج کی ضرورتوں کا اندازہ لگایا تو وئہ ناکافی تھا۔ وئہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ وئہ کیا خریدے، پہلے ماں کی دوائی لے؟ یا بچے کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جائے؟یا بھوک ختم کرنے کے لیئے اٹا خریدے؟ اس نے تیزی سے پرندوں کے خالی پنجرے اٹھائے اور گھر کی طرف دوڑ پڑا۔
پرند وں نے پنجروں سے نکل کر اسمان کی طرف لمبی پرواز کی اور واپس أکر ایک درخت پر بیٹھ گئے۔وئہ اپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ انسان بھی عجب مخلوق ہے۔پرندوں کو ازاد کرتے ہیں اورانسانوں کو غلام۔ان کے خیال میں پرند وںکو ازادی دلانا ایک ا حسن فعل ہے۔جو فطرت کو پسند ہے۔ان کے اس فعل سے ازاد ہونے والے پرندے بھی ان کے لیئے دعائیں کرتے ہیں۔ دو سرا پرندہ بولا کہ انسانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ پر ندوں کو پیسے دیکر ازاد کرانے کے عمل نے ایک مستقل پیشے کی شکل دے دی ہے۔

یہ نوجوان جس نے اج کی مجبوریوں کیلئے ہمیں بیچا ہے یہ صبح پھر جال لیکر پرندوں کو پکڑنے کے لیئے ا جائے گا۔ایک پرندہ جو کافی دیر سے یہ بحث سن رہا تھا بولا کہ انسان ہمیں اگر مستقل ازادی دے دیں تو زیادہ بہتر نہیں۔سارے پرند وں نے پوچھا کہ وئہ کیسے؟ اس طرح کہ وئہ سارے انسانوں کو معاشی غلامی سے نجات دلا دیں۔تاکہ کوئی انسان اس حد تک نہ گر سکے کہ وئہ بھوک مٹانے کیلئے پرندے پکڑ کر بیچے۔

ایک ائینی ماہر پر ندے نے ان سب کی توجہ ان انسانوں کے بنائے ہوئے أئین کی طرف مبذول کرائی کہ اس میں أرٹیکل3بھی ہے۔جس کی روح سے ملک سے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ اور ہر شہری کو باعزت روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ أرٹیکل 38 بھی اسی أئین کا حصہ ہے۔جس کی رو سے ریاست ہر شہری کو جنس،ذات اور نسل سے بالا تر ہو کر روٹی، کپڑا،مکان، تعلیم اور علاج کی سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے۔ ایک اور پرندے نے پوچھا کہ کیا صرف أرٹیکل 6 کی خلاف ورزی ہی غدار بناتی ہے یا أرٹیکل 3 اور 38 کی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے بھی غدار تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اگر أرٹیکل 3 اور38 کی خلاف ورزی نہ ہو تو ملک پاکستان کو فلاحی ریاست بننے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔یہاں نہ صرف پرندے أزاد ہوں گے بلکہ انسان بھی أزاد ہونے لگ جائیں گے۔

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان