بھارت کی مصیبتیں

India

India

پاکستان نے بھارت کے پسندیدہ ترین تجارتی قوم یعنی Most Favoured Nation قرار دینے کے باب کی بندش کا اعلان کیا کیا، بھارت کے حامی زبر دست بے چین ہوکر میدان پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں۔تازہ ترین بیان کینیڈا کی حکومت نے داغتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کرڈا لا ہے کہ وہ فوری طور پر بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دے ۔کینیڈا کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دونوں ملکوں کے لئے بہت فوائد کا باعث ہو گا۔دوسری طرف پاکستان کے عوام اور محب وطن حلقے اور جماعتیں بھارت کو پسندیدہ قرار دینے کے اس لئے بھی خلاف ہیں کہ بھارت کے ساتھ پہلے بنیادی مسائل خاص کر مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔اگر یہ مسئلہ حل کئے بغیر بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم قرار دے کر اس پاکستانی منڈیوں تک رسائی دی گئی تو ہم اپنا موقف کھو دیں گے۔یو ں اس حوالے سے بالآخر پاکستانی عوام کی 2سال کی جدوجہد رنگ لائی اوربھارت کوایم ایف این کا درجہ دینے کا باب بند ہو گیا۔بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا کام گزشتہ حکومت کے دور میں شرو ع ہوا تھا جو ملتوی ہوتے ہوتے بالآخر موجودہ نئی حکومت کے دور میں بھی ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی بار بار وعدوں، تسلیوں اور امیدیں دلانے کے باوجود گزشتہ ہفتے بھارت کو صاف جواب دے ہی دیا۔ اس حوالے سے پاکستانی وزیر تجارت جناب خرم دستگیرجو سال رواں کے آغاز پر بھارت کا دورہ بھی کر کے آئے تھے۔ انہوں نے اپنے اس دورئہ بھارت میں زیادہ سے زیادہ باہمی تجارت کھولنے کی بات بھی کی تھی اور واہگہ بارڈر کو تجارت کیلئے 24گھنٹے کھولنے کا بھی زوروشور سے تذکرہ کیا تھا۔ بات اگلے ہفتے یعنی فروری میں لاہور میں مجوزہ بھارتی صنعتی نمائش تک پہنچی تو پاکستانی وزیر تجارت نے اپنے بھارتی ہم منصب آنند شرما کو دعوت دی کہ وہ لاہور آ کر خود اس نمائش کا افتتاح کرے۔

بھارت پہلے تو اس پر خوش ہوا کہ پاکستان اسے پسندیدہ سے بھی آگے کا درجہ دے رہا ہے لیکن چند ہی روز بعد ان پر یہ عقدہ کھل گیا کہ ایسا کوئی فیصلہ متوقع نہیں ہے، اس لئے بھارت نے اپنی صنعتی نمائش کو عوامی شو میں بدل دیا اور بھارتی وزیر تجارت نے اپنا دورئہ بھی منسوخ کر دیا۔ پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے جب یہ فیصلہ سنایا کہ بھارت کو تجارت کیلئے ”پسندیدہ ترین قوم” قرار دینے کا معاملہ سرے سے ہی ختم ہو چکا ہے تو اس وقت ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت ان کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر عائد بھاری ٹیکس ختم کرنے کو تیار نہیں ہے اور ان حالات میں یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے تو بھارت پر ٹیکس عائد نہیں کر رکھا تو اس نے یہ ٹیکس کیوں نافذ کر رکھا ہے؟ حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ دراصل عوام پاکستان کی ہی فتح ہے کہ جو گزشتہ دو سال سے اس مہم کے خلاف میدان میں تھے۔ بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان میںسوائے جماعة الدعوة کے ان کا کوئی مخالف نہیں، اس لئے وہ جب اور جو چاہیں گے اپنے حوالے سے فیصلے کروا لیں گے لیکن انہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی منہ کی کھانا پڑی۔ حالانکہ پسندیدہ کی اس گیم کے پیچھے اکیلا بھارت نہیں اس کھیل کے پیچھے اصل کردار ادا کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کو بھی اس اعلان سے رسوا کن شکست ہوئی ہے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان اس وقت جو کچھ برآمد کر رہا ہے اس میں سب سے نمایاں سیمنٹ ہے۔لیکن حیران کن بلکہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بھارت وہی سیمنٹ استعمال کر کے ہمارے دریائوں پر ڈیم بنا کر ہمارا پانی بند کر رہا ہے۔اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت کویہ سیمنٹ بھی بھیجنا بند کیا جائے۔

پاکستان میں تجارت کے حوالے سے بھارت کی سازش یہ تھی کہ وہ پاکستان سے ایم ایف این کا درجہ حاصل کرنے کے بعد اگلے مرحلے کے طور پر پاکستان کے راستے افغانستان اور پھر وسط ایشیا تک رسائی حاصل کرے گا اور یوں پاکستان سمیت سارا خطہ اس کے تابع ہو جائے گا۔ چند روز پہلے بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے سارے حالات کو بھانپتے ہوئے ہی تو بیان دیا تھا کہ پاکستان کو ہمیں ہر صورت افغانستان تک راہداری دینا ہو گی کیونکہ افغانستان میں ہم اپنے منصوبے چلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا پاکستان پر یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کی جغرافیائی حیثیت ایسی باکمال رکھی ہے کہ ساری دنیا کا امن ہو یا معاشی مسائل، باہم ربط و سفر ہو یا تجارت، پاکستان دنیا بھر میں ہر ملک کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

بھارت اس وقت پاکستان سے زیادہ توانائی کے بحران سے دوچار ہے۔ اس نے توانائی کے حصول کیلئے پہلے ایران سے معاہدہ کیا تو طے یہ پایا کہ ایران جہاں پاکستان کو گیس فراہم کرے گا، وہیں وہ گیس پائپ لائن بعد میں بھارت کو جائے گی۔ یعنی بھارت کو ایران کی گیس کے حصول کیلئے بھی پاکستان کی راہداری کی ہی ضرورت ہے۔ یہ بات آگے نہ بڑھ سکی تو دنیا نے اگلے توانائی منصوبے کا نام سنا جسے پہلے ”تاپ” اور پھر ”تاپی” کا نام دیا گیا یعنی تاجکستان سے گیس آئے گی جو سب سے پہلے افغانستان کو پھر پاکستان کو ملے گی۔ بعد میں امریکہ نے اس میں انڈیا کو شامل کر کے اس کا نام ”تاپی” کروا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بھارت تاجکستان سے بھی گیس لینا چاہئے تو راستہ پاکستان سے ہی گزرے گا۔ تاجکستان وہ مسلم ملک ہے جہاں گیس کے بے پناہ ذخائر ہیں اور وہاں کی عوام کیلئے گیس تو مکمل طور پر مفت ہے، اور پاکستان کیلئے یہ گیس بآسانی دستیاب ہے لیکن پاکستان کے بغیر بھارت کو نہیں مل سکتی۔

یوں یہ بات دنیا کے سامنے ہے کہ بھارت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کا ہی ہر لحاظ سے محتاج ہے۔ اگر ہمارے حکمران اگر اس انتہائی سیدھے سادھے نکتے کو سمجھ جائیں تو بھارت کو دنوں میں سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ بھارت ہی نہیں اس کا باپ امریکہ بھی اپنی بقا کیلئے پاکستان کے سامنے ہاتھ جوڑنے پرمجبور ہے۔ امریکہ کا میڈیا، اعلیٰ حکام، فوجی افسران، عسکری و دفاعی ادارے وغیرہ تو عرصہ دراز سے واویلا کر رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہونے والی
مزاحمت میں سارا خفیہ ہاتھ پاکستان کا ہی ہے لیکن دوسری طرف ان کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اسی پاکستان کے پائوں پکڑ کر افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کریں۔ کیسی حیران کن بات ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنا جنگی و سازوسامان پاکستان کو دینے کیلئے تیار ہو گیا ہے حالانکہ وہ یہ سامان حرب و ضرب تو افغان کٹھ پتلی حکومت کو بھی دینے کیلئے تیار نہیں تھا جو براہ راست اس کے کنٹرول میں ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں اور رحمتوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے اتنا بڑا محاذ کھولا، بھارت کو ہر طرح کی شہہ دے کر اس کے خلاف نہ صرف ابھارا بلکہ اسے میدان میں بھی لاکھڑا کیا۔ اسی امریکہ کی شہہ پر بھارت نے پاکستانی دریائوں کا پانی بند کیا اور ہماری زراعت کی تباہی کی بنیاد رکھی، آج وقت ہے کہ اس بھارت سے ایک ایک ظلم و زیادتی کا حساب لیا جائے۔

ایک ایسے موقع پر جب سعودی عرب کا تعاون ملنے سے پاکستانی معیشت مضبوط اور ڈالر کی قیمت بھی گر رہی ہے تو دوسری طرف بھارت کی سازش بھی ناکام ہوئی ہے۔عوام اور صاحب اقتدار و اختیار کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہے کہ بھارت آستین کا سانپ ہے کہ وہ ایک طرف آزاد کشمیر سے تجارتی ٹرک لے جانے والے ہمارے ٹرک ڈرائیور کو بھی دو ماہ سے گرفتار کئے ہوئے ہے تو دوسرا اس نے آزاد کشمیر کے راستے دوبارہ تجارت بھی کھلوا لی ہے۔

وہ صرف پاکستان کو دبائو میں رکھنے کیلئے ایسے گھٹیا حربے استعمال کر رہا ہے۔ یہی حربہ اس نے سمجھوتہ ایکسپریس سے چند پستول ”برآمد” کرنے کا ڈرامہ کر کے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن یہ اس کی اس قدر گھٹیا حرکتیں ہیں کہ جن سے وہ نہ صرف بے نقاب ہو رہا ہے بلکہ دنیا میں خود ہی اپنے ہاتھوں ذلت اٹھا رہا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی آنکھیں کھول رکھیں اور پالیسیوں میںملک و قوم کا مفاد ہی مقدم رکھیں۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین