ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اقو ام متحدہ سلامتی کونسل میں افغانستان کے حوالے سے بحث کے دوران پاکستان کا نام تو نہیں لیا تاہم یہ بالکل واضح تھا کہ ان کا اشارہ کس ملک کی جانب ہے۔
بھارت نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن سے متعلق بحث کے دوران افغانستان میں سلامتی کی صورتحال اور ترقی کو بہتر بنانے کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو بالواسطہ مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجانا چاہیے۔ بھارت نے جنگ زدہ اس ملک کے لیے مکمل ٹرانزٹ اختیارات دینے پر بھی زور دیا۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے افغانستان میں خواتین، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں پر ہونے والے حملوں اور تشدد کے خاتمے کے لیے مستقل اور جامع جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جنگ زدہ ملک میں حقیقی سیاسی مفاہمت کے لیے کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرے گا۔
جے شنکر کا کہنا تھا،”افغانستان میں دیرپا امن کے لیے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو فوراً ختم کرنا اور دہشت گردوں کے سپلائی چین کو پوری طرح منقطع کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے، اس میں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی بھی شامل ہے۔” ان کا بظاہر اشارہ پاکستان کی طرف تھا۔
جے شنکر نے مزید کہا،”اس امر کو یقینی بنانا بھی یکساں طور پر اہم ہے کہ دہشت گرد گروپ دیگر ملکوں کو دھمکی دینے یا ان پر حملے کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ناکرنے پائیں۔” انہوں نے کہا افغانستان میں دیر پا امن کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے اندر بھی امن قائم ہو اور اس کے اطراف کے ملکوں میں بھی امن قائم رہے۔
بھارت نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ افغانستان کی ترقی اور تعمیر نو کو یقینی بنانے کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔
بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا،”افغانستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ بین الاقوامی برادری کو افغانستان پر نافذ مصنوعی ٹرانزٹ رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے کام کرنا چاہیے اور کسی رکاوٹ کے بغیر افغانستان میں پہنچنے کے لیے ٹرانزٹ حقوق کی ضمانت دینی چاہیے۔”
دراصل بھارت کی شکایت ہے کہ پاکستان کی رکاوٹوں کی وجہ سے بھارتی مصنوعات زمینی راستے سے افغانستان نہیں پہنچ پا رہیں جبکہ پاکستان نے افغانستان کی مصنوعات کو بھارت جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔نئی دہلی نے ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے افغانستان اور بھارت کے درمیان کئی فضائی تجارتی کوریڈور شروع کر دیے ہیں اور ایران کی چا بہار بندرگاہ پر بھی اسی مقصد کے لیے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
بھارتی نے حالیہ دنوں میں افغانستان میں تشدد کی لہر میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ بات واضح ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے باوجود تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
انہوں نے کہا،”اس کے برخلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص یکم مئی کے بعد سے۔ ملک میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں، طالبات، افغان سکیورٹی فورسز، علماء، اہم عہدوں پر فائز خواتین، صحافیوں، حقوق انسانی کے کارکنوں اور نوجوانوں کو نشانہ بنا کر حملے کیے جارہے ہیں۔”
دریں اثنا افغان امن مذاکرات میں شامل قطر کے ایک سفارت کار نے تصدیق کی ہے کہ بھارتی عہدیداروں نے طالبان کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
قطر کے وزیر خارجہ کے خصوصی ایلچی مطلق بن ماجد القحطانی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت بھی افغانستان میں مستقبل کی حکومت کے لیے ایک ‘کلیدی عنصر‘ کے طور پر دیکھے جانے والے طالبان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں ایسے خبریں سامنے آئی تھیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کے تیزی سے انخلاء کے سبب بھارت ملاعبدالغنی برادر سمیت افغان طالبان کے مختلف گروپو ں کے ساتھ رابطے میں ہے۔