تحریر : محمد اشفاق راجا بھارتی جارحانہ عزائم سے عملاً پوری دنیا کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ سفاک دشمن بھارت نے یوم سقوط ڈھاکہ پر پاکستان کو مزید چرکہ لگانے کیلئے کنٹرول لائن پر نکیال سیکٹر میں معصوم بچوں کی سکول وین کو نشانہ بنا کر اس پر فائر کھول دیئے جس سے وین کا ڈرائیور شہید اور وین میں موجود دس طلبہ زخمی ہوگئے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے اس بھارتی سفاکی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے گزشتہ روز بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کیا اور انہیں حکومت پاکستان کا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ آئی ایس پی آر نے اس بھارتی جارحیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعہ میں ایک شہری شہید اور چار طلبہ زخمی ہوئے ہیں تاہم مقامی لوگوں نے زخمی طلبہ کی تعداد دس بتائی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج کی اس اشتعال انگیزی کا پاک فوج نے بھرپور جواب دیا ہے اور اسکے بدلے میں ان بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے سکول وین پر فائرنگ کی گئی۔
کنٹرول لائن پر جھڑپوں کی تاریخ میں پہلی بار ایک سکول وین کو نشانہ بنایا گیا ہے’ فائرنگ کی زد میں آنیوالی وین میں 20 طلبہ سوار تھے جن کی عمریں آٹھ سے پندرہ برس کے درمیان ہیں۔ چار زخمی بچوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال کوٹلی منتقل کردیا گیا ہے جن میں سے تین کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ کی جانب سے پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 23 نومبر کو بھارتی فوج نے وادی نیلم کے علاقے لوات میں ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجہ میں 9 مسافر شہید اور 11 زخمی ہوئے تھے۔تجزیہ خبر رساں ادارہ بی این پی کے مطابق دفتر خارجہ پاکستان نے گزشتہ روز کی سفاکی پر بھارت کو بھجوائے گئے احتجاجی مراسلہ میں باور کرایا ہے کہ بھارت کا یہ طرزعمل انسانی وقار’ بنیادی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے بھارت سے اس امر کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ 2003ء کے سیزفائر لائن معاہدے کا احترام کرے اور مذکورہ واقعہ سمیت اب تک بھارتی فوج کی جانب سے کی گئی سیزفائر لائن کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرائے۔ بی بی سی کے مطابق بھارتی فوج نے سکول وین پر فائرنگ کے علاوہ مارٹر گولے بھی پھینکے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے باور کرایا کہ بھارت نے جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسکے ساتھ فیصلہ کن جنگ ہوگی جس میں اسے منہ کی کھانا پڑیگی۔
اگرچہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر گزشتہ اڑھائی سال سے تسلسل کے ساتھ بلااشتعال اور یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے جو پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی مودی سرکار کی پالیسی کا حصہ ہے تاہم گزشتہ روز بطور خاص سانحہ سقوط ڈھاکہ والے دن 16 اکتوبر کو معصوم بچوں کی سکول بس پر فائرنگ کرکے پاکستان کو بھارتی جنگی جنونی عزائم کا واضح پیغام دیا گیا ہے اور اس سفاکی کے ذریعے پاکستانی قوم کو سانحہ اے پی ایس پشاور کی صورت میں لگائے گئے زخم بھی ہرے کئے گئے ہیں جس میں ہمارے اس سفاک دشمن نے افغان دھرتی کو استعمال کرکے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچوں کو انکے اساتذہ اور پرنسپل سمیت بے دردی سے ذبح کرایا تھا۔ گزشتہ روز قوم نے بھارت کے ہاتھوں رونما ہونیوالے یوم سقوط ڈھاکہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے دو سال قبل اسی روز رونما ہونیوالے سانحہ? اے پی ایس پر بھی خون کے آنسو بہائے اور ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کے افواج پاکستان کے تجدید عہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جبکہ اسی روز سفاک بھارت نے کنٹرول لائن پر معصوم بچوں کی سکول وین پر فائرنگ کرکے ہمارے زخمی دلوں کو ایک اور چرکہ لگا دیا۔
Pak Army
اگرچہ پاک فوج کی جانب سے اس بھارتی ننگی جارحیت کا فوری اور موثر جواب دیا گیا ہے اور بھارتی چوکیوں پر جوابی فائرنگ کی گئی ہے تاہم بھارت ہماری سالمیت کیخلاف جس سفاکی کے ساتھ جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے جس میں ملک کے عام شہریوں اور بچوں تک کی جانیں ضائع ہورہی ہیں’ اسکے پیش نظر اب محض بھارتی سفارتکاروں کو دفتر خارجہ طلب کرکے انہیں رسمی احتجاج ریکارڈ کرانا اور بھارتی حکومت کو احتجاجی مراسلہ بھجوانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اب ہمیں اپنے اس سفاک دشمن کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرکے دکھانا ہوگا تاکہ وہ آئے روز کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے باز آئے۔ قوم کو یقیناً عساکر پاکستان کی پیشہ ورانہ دفاعی صلاحیتوں پر اعتماد بھی ہے اور اس پر ناز بھی ہے جبکہ عساکر پاکستان نے آزمائش کے کسی مرحلے میں قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا اور دشمن کو منہ توڑ جواب دیا ہوا ہے۔
اگر 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں پیدا ہونیوالی منافرتوں کی فضا میں مکتی باہنی کو بھارتی معاونت اور سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو یقیناً سقوط ڈھاکہ کی نوبت نہ آتی۔ تاہم ہماری سول اور عسکری قیادتوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ ارض وطن کو اس ہزیمت سے بھی باہر نکال کر ایٹمی ٹیکنالوجی کے ذریعے دشمن کی سازشوں کا توڑ کرلیا اور پوری قوم پھر دفاع وطن کیلئے عساکر پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن گئی مگر ہماری سلامتی کیخلاف بھارتی نیت کا فتور بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا رہا ہے جو ہمارے ایٹمی قوت ہونے کے باعث پہلے کی طرح اب تک ہم پر کوئی جنگ تو مسلط نہیں کر سکا مگر وہ ہماری سلامتی کو نقصان پہنچانے کے ہر موقع کی تاک میں رہتا ہے’ بالخصوص موجودہ بھارتی حکمران بی جے پی نے تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اپنے حکومتی ایجنڈے کا حصہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ مودی سرکار کے اقتدار کے اڑھائی سال کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب بھارت نے کنٹرول لائن اور دوسرے محاذوں پر ہمیں چین سے بیٹھنے دیا ہو۔
مودی سرکار کے اقتدار کے دوران بھارتی فوج نے ایک جانب کشمیری عوام پر نئے اور اچھوتے مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا پامردی سے سامنا اور مقابلہ کرتے ہوئے اب تک سینکڑوں کشمیری نوجوان شہید’ زخمی اور مستقل اپاہج ہوچکے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کو زچ کرنے کیلئے کنٹرول لائن پر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور پھر وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کے بھونڈے الزامات کے تحت اقوام عالم میں پاکستان کو تنہاء کرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہوگیا تاہم بھارتی فوج کی جانب سے بے صبری کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر کی جانیوالی جارحیت سے اقوام عالم میں بھارتی جنونی عزائم ہی اجاگر ہوئے چنانچہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے خطے کا امن تہہ و بالا کرنیوالی بھارتی سازشوں کا نوٹس لیا جاچکا ہے۔ اسی تناظر میں امریکی دفتر خارجہ نے بھارتی فوج کی جانب سے گزشتہ روز نکیال سیکٹر پر کی گئی سکول وین پر فائرنگ کا بھی فوری نوٹس لیا ہے اور اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جبکہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کے ترجمان نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ نئی امریکی حکومت کے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رہیں گے۔
بھارت اپنے جنونی عزائم کی بنیاد پر آج بلاشبہ پوری دنیا میں بے نقاب ہوچکا ہے اس لئے اب کسی بھی بھارتی جارحیت پر ہماری جانب سے ”جیسے کو تیسا” والے جواب سے بھی اقوام عالم مطمئن ہوگی کیونکہ اس وقت بھارتی جارحانہ عزائم سے عملاً پوری دنیا کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے جس پر عالمی ادارے اور عالمی قیادتیں بجا طور پر متفکر ہیں۔ چنانچہ آج ہمیں اپنے مکار دشمن کو یہ باور کرانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اگر لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے ہی نہیں تو انکے علاج کا مجرب نسخہ ہی آزمایا جانا چاہیے جبکہ ہمارا ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا مقصد بھی بدمست دشمن کا نشہ ہرن کرنے کا ہے۔ آج یہ مکار دشمن ہماری سلامتی کیخلاف جس ہذیانی کیفیت میں چنگھاڑتا نظر آرہا ہے’ اسے ایٹمی جنگ کی صورت میں ہونیوالی تباہی کا احساس دلانے کا یہی مناسب وقت ہے۔ چنانچہ اب بہتر یہی ہے کہ بھارتی سرجیکل سٹرائیک کے دعوئوں اور اسکی اب تک کی جارحانہ کارروائیوں کے جواب میں اسے پاکستان کے ”ٹیکٹیکل ویپنز” کا تھوڑا سا عملی مظاہرہ کرکے دکھا دیا جائے تاکہ اسکے ہوش ٹھکانے آئیں۔ اگر ہمارا یہ مکار دشمن ہماری سلامتی پر کوئی اوچھا وار کرنے پر تلا ہی بیٹھا ہے۔