بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) نئے متنازعہ قوانین کا مقصد بھارت کے زرعی شعبے میں اصلاحات ہیں اور یہ کسانوں کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کی اجازت دیتے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ قوانین بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کا سبب بنیں گے۔
بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا نے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمان کے احتجاج کے باوجود آج اتوار 20 ستمبر کو دو زرعی قوانین کی توثیق کر دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے نجی سرمایہ کاری کے ذریعے زرعی شعبے کی ترقی ہو گی۔
بھارتی وزیر زراعت نریندرا سنگھ تومر کے مطابق ان قوانین سے بھارت کے شدید مشکلات کے شکار ایگریکلچر سیکٹر میں اصلاحات ہو سکیں گی اور ان سے بھارتی کسانوں کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے کی آزادی حاصل ہو گی۔ بھارتی حکومت کو امید ہے کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد بھارتی کسانوں کی کمائی سال 2022ء تک دو گنا ہو جائے گی۔
بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا میں تیسرا بل تاہم اپوزیشن کے احتجاج کے بعد اسمبلی کا اجلاس مؤخر کر دیے جانے کے سبب منظور نا ہو سکا۔ یہ بل زرعی شعبے میں اصلاحات سے ہی متعلق ہے۔ پاس شدہ بل اب بھارتی صدر کے دستخطوں کے بعد باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لیں گے۔
بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھارتی کسانوں کو سرمایہ داروں کا ‘غلام‘ بنا رہے ہیں۔
ان بلوں کی منظوری سے قبل پارلیمان میں ہونے والی بحث کے دوران حکومت کے بعض اتحادیوں نے بھی انہیں ‘کسان دشمن‘ قرار دیا۔ ان قوانین کے خلاف احتجاج کے طور پر جمعرات کے روز شرومنی اکالی دل پارٹی کی رکن پارلیمان ہرسمرت کور نے فوڈ پراسیسنگ کی وزارت سے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔
بھارتی کسان گزشتہ کئی برسوں سے زرعی شعبے کو نظر انداز کیے جانے پر حکومت کے خلاف احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ بھارت کے نصف سے زائد کسان قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق سال 2018ء اور 2019ء کے دوران 20,638 کسانوں نے انہی وجوہات کی بنا پر خودکشیاں کر لیں۔