ممبئی (جیوڈیسک) بھارت ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کے لیے بھاری رقوم خرچ کر رہا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں تک رسائی حاصل کر سکے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے بدھ کے روز اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ مذاکرات میں شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا دفاع کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایشیا بھر میں چین کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے بھارت کے ساتھ اپنے فوجی اور اقتصادی رابطوں کو بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور ریکس ٹیلرسن کے درمیان مذاکرات میں دونوں ملکوں نے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تعاون میں اضافے پر اتفاق کیا۔ ٹیلر سن نے کہا کہ امریکہ بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
خبررساں اداے روئیٹرز کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران بھارت کے شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی زیر بحث آئے۔ امریکہ شمالی کوریا کے جوہری عزائم اور بیلسٹک میزائلوں کے تجربات پر اسے دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔
سوراج نے امریکی وزیر خارجہ کو بتایا کہ ان ملکوں کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے کے لیے کسی پیمانے پر سفارتی تعلق قائم رکھنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹیلرسن کو بتایا کہ ان کے کچھ دوست ملکوں کو شمالی کوریا میں اپنے سفارت خانے قائم رکھنے چاہییں تاکہ بات چیت کے کچھ راستے کھلے رہیں۔
سشما سوراج نے بتایا کہ بھارت اور شمالی کوریا کے دارالحکومتوں میں دونوں ملکوں کے سفارت خانے موجود ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بہت محدود ہے اور وہ بھی صرف خوراک اور ادویات کے شعبوں تک ہے۔
بھارت ایران کے ساتھ بھی اپنے رابطے برقرار رکھنا چاہتا ہے جسے اپنے مبینہ بیلسٹک میزائل پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں انتہا پسند گروپس سرپرستی کی بنا پر ٹرمپ انتظامیہ کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
بھارت طویل عرصے سے ایران سے تیل حاصل کررہا ہے اور حالیہ برسوں میں دونوں ملک انفراسٹرکچر سے اہم پراجیکٹس پر تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کے لیے بھاری رقوم خرچ کر رہا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ امریکہ اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ تاہم اب امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن نے کہا ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے دوسرے ملکوں کے ساتھ قانونی کاروباروں اور اقتصادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔
پاکستان کے حوالے سے اعلیٰ امریکی سفارت کا ر کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ بھارت کا طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گرد گروپس پاکستان کے اندر سے کارروئیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انہیں وہاں پناہ گاہیں حاصل ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستانی عہدے داروں سے ملاقات میں ان پر بھی یہ واضح کیا ہے کہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اور ہم پاکستان کے استحكام کے لیے بھی فکر مند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کا موقف ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف وہ سب کچھ کر رہا ہے جو اس کی بساط میں ہے۔