بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی نے ملک کے جمہوری اداروں پر قبضہ کر لیا ہے اور اس سے اپوزیشن کے لیے مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔
بھارت میں حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما نے دو اپریل جمعے کے روز کہا کہ بھارت میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس پر آخر امریکا نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔
راہول گاندھی نے دنیا میں ’جمہوریت کے وژن‘ پر ایک آن لائن مباحثے کے دوران یہ بات کہی جس میں امریکا کے سابق سفیر نکولس برن بھی شامل تھے۔ نکولس برن نے جب روس اور چین کی جانب سے پیش کیے جانے والے سخت نظریات کے مقابلے میں جمہوری اقدار پر بات شروع کی تو راہول گاندھی نے کہا کہ آخر امریکا بھارت کے بارے میں خاموش کیوں ہے؟
ان کا کہنا تھا، ’’بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے میں اس پر ہمیں امریکی حکومت کی جانب سے کچھ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ اگر آپ جمہوریتوں کے درمیان شراکت داری کی بات کہہ رہے ہیں، تو پھر یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں بنیادی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ امریکا ایک عمیق نظریہ ہے، جس طرح سے نظریہ آزادی آپ کے آئین میں شامل ہے۔ لیکن آپ کو اس نظریے کو دفاع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہی سب سے اہم سوال ہے۔‘‘
بات چيت کے دوران راہول گاندھی نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی کی کہ حکمراں جماعت نے بھارت کے تقریباً تمام جمہوری اداروں پر قبضہ کر کے اس طرح تبدیل کر دیا ہے کہ 2014 ء کے بعد سے اپوزیشن کے لیے کام کرنا مشکل ہوگيا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جن اداروں کا کام منصفانہ سیاسی لڑائی کی حمایت کرنا ہوتا ہے وہ اب ایسا نہیں کرتے ہیں۔‘
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’انتخابات لڑنے کے لیے، مجھے ادارہ جاتی ڈھانچے کی ضرورت ہے، مجھے ایسے عدالتی نظام کی ضرورت ہے جو میری حفاظت کر سکے، مجھے ایسے میڈیا کی ضرورت ہے جو آزاد ہو، مجھے مالی برابری کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کا جو سلوک ہے اس سے سماج کا ایک بڑا طبقہ بہت مایوس ہے اور ایسے تمام لوگوں کو ایک ساتھ لانے کی ضرورت ہے۔
راہول گاندھی سے جب یہ سوال کیا گيا کہ اگر وہ وزير اعظم بن گئے تو ان کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ان کا ترقی کی پالیسی پر بہت زیادہ زور دینے کے بجائے روزگار مہیا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے پر ہوگی۔
ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں ترقی کی ضرورت ہے لیکن ہم پیداوار بڑھانے اور روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اقدار پر توجہ مرکوز کریں گے۔‘‘
گزشتہ ماہ بھی راہول گاندھی نے جمہوری اقدار کے نگراں سویڈن کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا، ‘بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا۔‘ اس سے سوشل میڈیا پر زبردست بحث چھڑ گئی تھی۔ اس سے ایک ہفتے قبل بھی انہوں نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت پر یہ کہہ کر سخت نکتہ چینی کی تھی کہ وہ بھارتی جمہوریت کا گھلا گھونٹنے کا کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی کے دور اقتدار میں تمام حکومتی اداروں کو سخت گیر ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریات سے آلودہ کیا جا رہا ہے اور اس سے بڑے حکومتی اداروں کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حال یہ ہے کہ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس اپنے نظریات کے حامی لوگوں کو ملک کے تمام اداروں ميں بھرتی کرا رہی ہے۔ ” تو اگر ہم انتخابات میں بی جے پی کو شکست بھی دے دیں تو بھی ہم اداروں میں موجود ایسے افراد سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔‘‘