آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کسی کی دھمکیوں اور دباؤ سے مرعوب نہیں ہوں گے، ہم خوفزدہ ہیں نہ ہی مجبور ہیں،کسی بھی جارحیت اور مہم جوئی کا اسی شدت سے جواب دیا جائے گا، پاکستان امن پسند ریاست ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پرچری کوٹ اور باگسرسیکٹر کا دورہ کیا، آرمی چیف نے پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔آرمی چیف کو فارمیشن کمانڈرز نے ایل اوسی کی صورتحال سے متعلق بریفنگ دی۔آرمی چیف نے ایل اوسی پر تعینات جوانوں کے بلند جذبے اور تیاری کی تعریف کی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امن سے محبت کرنے والا ملک ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پلوامہ واقعات پر کافی چیزیں ہوئی ہیں۔14فروری کو سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا، پلوامہ دھماکے کا نوجوان بھی مقبوضہ کشمیر کا مقامی ہے۔دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی پاکستان سے نہیں گئی۔
دھماکے میں استعمال ہونے والا دھماکا خیز مواد پاکستان سے نہیں گیا۔ کشمیر میں بھارت کی بھاری فوج موجود ہے۔ ایل اوسی پر آبادی سے زیادہ بھارتی سیکیورٹی فورسز تعینات ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی لائن آف کنٹرول عبور کر سکے؟ اس کے باوجد بھارت نے بغیر تفتیش الزام پاکستان پر لگا دیا گیا۔پاکستان نے اس بار جواب دینے کیلئے تھوڑا سا وقت لیا۔ پاکستان نے الزامات کی تحقیق کی ، اور پھر پاکستان کے وزیراعظم نے جواب دیا۔ پاکستان کی 64 فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے۔ میں تھوڑا بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری 72 سال کی تاریخ ہے،1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان آزاد ہوا،اس حقیقت کو بھارت آج تک قبول نہیں کرسکا،1947 ء اکتوبر میں بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا اور 72 سال سے کشمیر میں کشمیریوں پر اس کے ظلم و ستم جاری ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 1965 میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہوئی اور بھارت اسے انٹرنیشنل بارڈر پر لے آیا اور وہاں اسے شکست ہوئی لیکن ہم ایک نوزائیدہ ملک تھے ہمارے وسائل اور فوج بھی کم تھی تو اس وقت ہمار املک جو ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس پر اثرات مرتب ہوئے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان سے جو ہمارا زمینی فاصلہ تھا اور جو وہاں کے مسائل تھے اسے بھارت نے استعمال کیا، مکتی باہنی کا کردار آپ کے سامنے ہے۔ اصل دہشت گردی بھارت نے تب کی جب مکتی باہنی کے ذریعے وہاں پر حالات خراب کروائے گئے لیکن اس سانحے سے بھی ہم سنبھلے۔ 1971 سے لے کر 1984 تک ایسا عرصہ تھا جس میں ہماری مشرقی سرحد پر کسی قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، حالات پرسکون تھے، ایل او سی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ہم ایک طریقے سے دوبارہ استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن تھے لیکن سیاچن کا واقعہ ہوا۔
ایک ایسا علاقہ جہاں افواج پاکستان کی موجودگی نہیں تھی وہاں پر بھارت نے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا اور اس وقت سے لے کر اب تک دنیا کے بلند ترین مقام پر افواج پاکستان ڈٹی ہوئی ہیں اور مقابلہ کررہی ہیں۔ اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین نے حملہ کیاجس کے بعد 1998 میں ہم نے دفاع کیلئے جوہری طاقت حاصل کی کیونکہ اس کی مدد سے بھارت کی جانب سے ہم پر روایتی جنگ مسلط کرنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔جب یہ امکانات ختم ہوئے تو بھارت نے غیرروایتی حکمت عملی اپناتے ہوئے ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینا شروع کیا۔ 2001 میں جب عالمی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو بھارت نے مشرقی سرحد پر بھارت نے کشیدگی شروع کردی اور ہماری توجہ اس طرف ہو گئی۔
اگر اس وقت ایسا نہیں ہوا ہوتا تو ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے کہ مغربی سرحد سے پاکستان میں داخل ہونیوالی دہشت گردی کو داخل نہ ہونے دیتے اور وہ اتنی نہ پھیلتی جتنی اس کے نتیجے میں پھیلی۔ 2008 میں جب ہم دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے تھے ہمیں کامیابیاں مل رہی تھیں تو ایک مرتبہ پھر بھارت اپنی افواج کو سرحد پر لے آیا جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارت، دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو روکنا چاہتا تھا جس کا زندہ ثبوت کلبھوشن کی صورت میں ہمارے پاس موجود بھی ہے۔ 1988،1989 میں دو طرفہ بات چیت کا آغاز کیا پاکستان نے ہمیشہ امن کی پیشکش کی، 2003 میں ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن کی اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کیلئے ایک معاہدہ کیا جس میں گزشتہ 2 برس میں بھارت نے تاریخ میں سب سے زیادہ خلاف ورزی کی۔ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر ہم نے 5 کراسنگ پوائنٹس بھی قائم کیے۔ 2004 سے 2008 تک 5 مرتبہ ہماری مذاکرات کے لیے بیٹھک بھی ہوئی لیکن اس مرحلے کو بھی ممبئی حملے جیسے تناظر میں بھارت نے ختم کردیا۔ دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اس وقت وہاں 2002 میں عام انتخابات اور صدارتی انتخابات ہونے تھے اور یہی وہ وقت تھا جب نائن الیون کے بعد پاکستان میں مغربی سرحد سے دہشت گردی ملک میں داخل ہونا شروع ہوئی۔
بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کردیا جائے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سفارتی لوگ اور سرمایہ کاری پاکستان میں آرہی ہے اور پاکستان ایئرفورس اور پاک بحریہ کی مشقوں میں بیرون ملک کی افواج نے بھی حصہ لیا۔ جب بھی پاکستان میں کوئی اہم ایونٹ ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی واقعہ کروا دیا جاتا ہے۔پلوامہ حملے کو دیکھیں تو14فروری 2019میں پاکستان میں سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان تھا، بڑی سرمایہ کاری آنی تھی، افغان امن عمل سے متعلق مذاکرات جاری ہیں ، کرتار پور بارڈر کی ڈویلپمنٹ سے متعلق اہم میٹنگ اور پی ایس ایل ہو رہا ہے، ان ایونٹ کی وجہ سے بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔پلوامہ حملے کا ان 8ایونٹ کے تناظر میں پاکستان کا توکوئی فائدہ نہیں ہے۔
پاکستان بدل رہا ہے، نیا مائنڈ سیٹ آرہا ہے، ہم بڑی مشکل سے یہاں پہنچے ہیں، ہم میں صبر اور تحمل موجود ہے، ہم نے افغانستان میں امریکی فورسز کو القاعدہ کے خلاف کامیابی دلوائی، ہم معاشی ترقی اور امن کی جانب بڑھ رہے ہیں، آئندہ نسلوں کو بہتر مستقبل دینے کی کوشش کررہے ہیں ، پاکستان نے پلوامہ حملے کا سوچا، تحقیق کی اور پھر جواب دیا، ہمارے وزیراعظم نے انڈیا کو بھرپور جواب دیا ، کہا کہ ثبوت دیں ہم خود ایکشن لیں گے۔ہمارے وزیراعظم نے ان کو دہشتگردی سے متعلق ڈائیلاگ کرنے کی بات بھی کی،وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی خطے کا مسئلہ ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔جس میں طے پایاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدیقینی بنائیں گے۔وزارت داخلہ نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک نکتے پرفوری عمل کیا۔بھارت میں باتیں ہورہی ہیں کہ ہم جنگی تیاریاں کررہے ہیں۔
ہم کوئی جنگی تیاری نہیں کررہے ہیں، ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بھارت کی پہل پر جواب دیں گے، ہماری جنگی تیاری دفاع میں ہوگی۔جارحیت ہوئی توآخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے اورمادروطن کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔ ہم 21 ویں صدی میں ہیں، ہمارے پاس بہت سے چیلنجز ہیں، عوام کو تعلیم صحت اور جینے کا حق حاصل ہے، بھارت آنے والی نسلوں سے اپنی بے وقوفی کے ذریعے یہ حق نہ چھینے، پاکستان اور پاکستانیت سے دشمنی کریں انسانیت سے مت کریں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور دو جمہوری ملکوں میں جنگ نہیں ہوتی، اگر آپ جمہوریت ہیں تو اس کے اصولوں کو بھی سامنے رکھیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے سوال کیا کہ پلوامہ کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا ، آپ امن اور ترقی چاہتے ہیں تو کلبھوشنوں کو ہمارے ملک میں مت بھیجیں، خطے کے امن کو تباہ نہ کریں اور ترقی کے موقع کو مت گنوائیں، اگر ہماری یہ سوچ ہے کہ خطے نے مل کر ترقی کرنا ہے تو ہم جنگ کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ ہم گزرے ہوئے کل کی افواج نہیں، ہمارے تینوں سپہ سالار سے لے کر سپاہی تک نے اپنے ہاتھ سے جنگ لڑی ہے، بھارت ایک معلوم خطرہ ہے اور ان کیلئے جواب تیار ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ صحافت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک امن کیلئے اور دوسری جنگ کیلئے، بھارت کا سارا میڈیا وار جرنلزم کی طرف ہے، ہمیں پاکستانی میڈیا کی تعریف کرنی چاہیے، ہمارا میڈیا پر امن صحافت کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں یہی فرق ہے۔ پاکستان کی سالمیت کی بات ہو تو 20 کروڑ عوام اس کے محافظ ہیں۔ مسئلہ کشمیر خطے کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے آئیے اسے حل کریں۔ آپ ہمیں حیران نہیں کرسکتے ہم آپ کو حیران کریں گے۔