ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) رکن وفاقی پارلیمان اسد الدین اویسی کی بھارتی پارلیمان کے قریب واقع سرکاری رہائش گاہ پر شدت پسند ہندووں نے توڑ پھوڑ کی۔ پولیس نے ہندو سینا کے پانچ کارکنوں کو حراست میں لیا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ پر ہندو سینا نامی شدت پسند تنظیم کے ایک درجن سے زائد کارکنوں نے منگل 21 ستمبر کو توڑ پھوڑ کی۔ اویسی کی یہ رہائش گاہ بھارتی پارلیمان کی عمارت سے محض چند قدم کے فاصلے پر اور قومی الیکشن کمیشن کے ہیڈکوارٹرز کے بغل میں ہے۔ ان کے مکان کے ٹھیک سامنے پارلیمنٹ اسٹریٹ پولیس اسٹیشن ہے اور قومی دارالحکومت کا یہ پورا علاقہ انتہائی سکیورٹی زون میں آتا ہے۔ اس کے باوجود شدت پسندوں نے دن دہاڑے نہ صرف اویسی کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی بلکہ فیس بک لائیو کرکے اپنے ‘کارنامے‘ پر فخر کا اظہار بھی کیا۔
جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اویسی اپنی جماعت کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے لکھنؤ میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو سینا نامی تنظیم کے ”حملہ آوروں نے ان کی رہائش گاہ کے دروازوں اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا۔ نام کی تختی توڑ ڈالی، گھر میں کلہاڑی پھینکی اور مجھے جہادی کہا۔”
اویسی نے اس واقعے پر ایک سے زائد ٹوئیٹ کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، ”ان لوگوں نے فرقہ وارانہ نعرے لگائے، مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی۔ایسے وقت میرے گھر پر حملہ کیا جب میں وہاں موجود نہیں تھا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ 40 برس سے کام کرنے والے ملازم راجو کے ساتھ مار پیٹ کی۔ اس کے چھوٹے بچے خوف زدہ ہیں۔”
انہوں نے مزید لکھا، ”یہ لوگ بزدل ہیں۔ ہمیشہ اپنی بزدلی گروپ کی شکل میں دکھاتے ہیں۔ میرے گھر کو تیسری مرتبہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ پچھلی مرتبہ جب ایسا ہوا تھا تو موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نہ صرف وزیر داخلہ تھے بلکہ میرے پڑوسی بھی تھے۔”
اویسی نے مزید لکھا، ”وزیر اعظم کی رہائش گاہ میرے گھر سے صرف آٹھ منٹ کی دوری پر ہے۔ گھر کے ٹھیک سامنے پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانہ ہے۔ بغل میں الیکشن کمیشن کا دفتر ہے۔ اس کے باوجود اگر ایک رکن پارلیمان کا گھر محفوظ نہیں ہے تو وزیر داخلہ امیت شاہ بقیہ شہریوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔”
اویسی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی سوال کیا، ”دنیا کوانتہا پسندی سے مقابلہ کرنے کا سبق دینے والے وزیر اعظم بتائیں کہ میرے گھر کو نشانہ بنانے والوں کو کسی نے انتہا پسند بنایا؟”
اویسی کی جماعت اے آئی ایم آئی ایم کی دہلی یونٹ کے صدر کلیم الحفیظ کا کہنا ہے کہ چونکہ اترپردیش میں الیکشن ہونے والے ہیں اور ریاست اور مرکز کی بی جے پی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوگئی ہے اس لیے اس کے پاس ایک ہی حربہ بچا ہے کہ ماحول میں نفرت گھول دیں تاکہ ووٹروں کی صف بندی میں آسانی رہے۔
کلیم الحفیظ نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا قانون و انتظام کی حالت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ ملک کے سب سے محفوظ علاقے میں لوگ دن دہاڑے ایسی حرکتیں کرجائیں: ”یہ تو دراصل امیت شاہ اور مودی کا امتحان ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی واقعے کے باوجود حکومت کی عدم سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ”اس واقعے کی ایف آئی آر کرانے کے لیے مجھے چھ گھنٹے تک تھانے میں بیٹھے رہنا پڑا اور پولیس نے قصورواروں کے خلاف بہت معمولی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا۔” انہوں نے یاد دلایا کہ اپنے آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے درجنوں بے گناہ طلبہ گزشتہ ایک برس سے زیادہ عرصے سے جیلوں میں بند ہیں اور حکومت نے ان کے خلاف سخت ترین دفعات کے تحت مقدمات درج کر رکھے ہیں۔
کلیم الحفیظ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے ابھی چند دن قبل ہی ایس سی او کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریڈیکلائزیشن دنیا کو تباہی کی جانب لے جا رہی ہے، ”لیکن بھارت میں جو ریڈیکلائزیشن ہو رہی ہے کیاوہ اسے نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ اویسی کے گھر پر توڑ پھوڑ کے الزام میں دہلی پولیس نے جن پانچ لوگوں کو حراست میں لیا ہے ان کی عمریں 20 سے 30 برس کے درمیان ہیں: ”ان نوجوانوں کا جس طرح برین واش کیا گیا ہے وہ ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کے لیے کافی ہے۔”
حملہ آوروں نے توڑ پھوڑ کے بعد نہ صرف فخریہ انداز میں اپنے ‘کارنامے‘ کا اظہار کیا بلکہ اس کو فیس بک لائیو بھی کیا۔ اس میں ہندو سینا کے ایک کارکن کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، ”میں اسد الدین اویسی جہادی کے پاس آیا ہوں، اس کو سبق سکھانے۔ جے شری رام۔”
اے آئی ایم آئی ایم دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے متنبہ کیا کہ ایسے شدت پسند ہندوؤں کی وجہ سے نہ صرف ملک کا جمہوری نظام کمزور ہورہا ہے بلکہ ‘کثرت میں وحدت‘ کی خوبی بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن ہندو سینا جیسی تنظیموں کی حرکتوں کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کے ان ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ غیر مقیم بھارتی شہریوں کو ہوگا جو مسلم ملکوں میں رہتے ہیں: ”اگر یہاں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا تو وہاں ان لوگوں کو پریشانی ہوسکتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، ”اس کے علاوہ دوسرے ملکوں کے ساتھ ہمارے رشتے بھی متاثر ہوں گے۔ اگر بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے تو عالمی برادری میں ملک کا امیج خراب ہوگا۔”
کلیم الحفیظ کا کہنا تھا کہ اس صورت حال پر قابو پانے کی بنیادی ذمہ حکومت پر عائد ہوتی ہے تاہم اقلیتوں اور تمام سیکولر جماعتوں کو بھی اس مسئلے کو پوری شدت کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے، ورنہ آنے والے دنوں میں کوئی بھی اس سے محفو ظ نہیں رہ سکے گا۔
پولیس کے ایک اعلی افسر دیپک یادو کے مطابق، ”ہم نے پانچ لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ وہ اویسی کے بعض بیانات سے ناراض تھے۔ ہم ان سے مزید پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔”
ادھر ہندو سینا کے قومی صدر وشنوگپتا نے تسلیم کیا کہ توڑ پھوڑ میں ملوث افراد ان کی تنظیم کے کارکن ہیں۔ گپتا کا کہنا تھا،”ہم اس طرح کے حملوں کے خلاف ہیں تاہم اویسی کو بھی ہندو مخالف تقریر نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اویسی اور ان کے بھائی نے مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لیے ہندو مخالف تقریریں کی تھیں جس کی وجہ سے ہمارے کارکنوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔”