تحریر: عارف رمضان جتوئی بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نے وزارت سنبھالتے ہی ایسی عجیب و غریب حرکتیں کی کہ خود بھارتی عوام بھی اپنے وزیر اعظم کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ جہاں وہ لوگ اس قدر حیران تھے وہیں پاکستانی ان کی ان حرکات کی پیشنگوائیاں کر چکے تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم نے امریکا کا دورہ کیا… اورواپس پاکستان لوٹ آئے۔ ان کی واپسی کے بعد کچھ ہی روز گزرے کہ امریکا اور بھارت سمیت پاکستان مخالف ممالک کی آنکھوں میں کھٹکنے والی ایک مخلص جماعت جماعة الدعوة اور فلاح انسانیت فائون ڈیشن کی میڈیا کوریج اور تشہیر پر پابندی کا فیصلہ سامنے آیا۔
حالانکہ حال ہی میں جب زلزلے سے ریونڈ کے درو دیوار ہل رہے تھے تو ان کے پڑوس سے ہی اسی جماعت کے فلاحی ادارے کے نوجوانوں نے اپنا ساز و سامان لیا اور زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں جا پہنچے اور اپنے مخصوص اور منفرد انداز سے فلاحی کاموں میں جت گئے… خیر اس پابندی سے بھارت سرکار نے وزیر اعظم نواز شریف کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور ساتھ میں پابندی کا دائرہ کار بڑھانے کی بھی امیدیں وابسطہ کرلیں۔ ان کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا کہ پھر 11 نومبر کی تاریخ بھی آگئی اور دو قومی نظریے پر حاصل کیے گئے ملک کے وزیر اعظم نے تمام ہندو برادری کو ”ہیپی دیوالی” کے موقع پر مبارک باد دی اور آئندہ ”ہولی”کے موقع پر ” مجھ پر بھی رنگ پھینکیں” کی درخواست کرڈالی۔ اس انوکھی مبارک باد کے بعد جو صورتحال مودی کے حوالے سے بھارت میں پاجارہی تھی وہیں اب ن لیگ کے شیروں میں پائی جارہی ہے۔
PML N
گزشتہ روز ایک کٹر ٹائپ کے ن لیگی نے وزیر اعظم کی شان میں مسلم لیگ ن کے سربراہ کی حیثیت سے گستاخانہ خیالات کا اظہار کر ڈالا۔ ان کے جملوں نے نہ صرف ان کے اندر کی تلخی کی چغلی کھائی بلکہ متوقع طور پر ن لیگ سے اپنی وابستگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اس وقت اپنی وزارت کی اونچی اڑانوں میں اڑ رہے ہیں۔ مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی وزارت عوام کی خواہشوں کے ساتھ ہی چل سکتی ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال حال ہی میں بھارتی بہار میں بھارتی جنتا پارٹی کی واضح شکست ہے۔
Narendra Modi
اگر بھارتی شہریوں کو نریندر مودی سے شکایات نہ ہوتیں تو یقینا وہ بہار میں بھی اپنی پوزیشن مظبوط کر لیتے میں ایسا نہیں ہوا کیوں کہ مودی سرکار کی پچھلے کچھ روز سے بھارت میں عوام نا پسندیدہ سرگرمیاں ہیں۔ اب وہیں کھیل پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی کھیل رہے ہیں۔ جہاں ایک بڑی مذہبی غیر سیاسی جماعت کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کی گئی، وہیں بیرونی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے پاکستانی نظریات سے ہٹ کر سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہیں جو کہ میاں نواز شریف کی پارٹی کی پوزیشن کو عوامی سطح پر نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ ان کو پارٹی میں بھی انخلاء سے دو چار کر سکتی ہے۔
پاکستان میں رہنے والے ہر شہری چاہیے وہ اقلیتیں ہی کیوں نہیں ایک وزیر کو تمام افرادکے جذبات کی قدر کرنا لازم ہے۔ ایسا کوئی بھی بیان جو کسی بھی مذہب اور مسلک کو بہت زیادہ اوپر لے جانا یا اس کے ساتھ ناانصافی کرنا ایک ملک کے وزیر اعظم یا ایک جمہوری پارٹی کے لئے ناقابل فہم امر ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اپنے موجودہ دو اقدام پر نہایت عقلمندانہ اور مفکرانہ غور فکر کرنا ہوگا۔