تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم گزشتہ دنوں اردو چرچ ہالینڈ کی جانب سے پاکستان کے لئے دعا کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس میں پاکستان کی خوشحالی، سلامتی اور بقا کے لئے خصوصی دعا کی گئ۔ اس پروگرام میں نیدرلینڈ میں سفیر پاکستان محترمہ عفت عمران گردیزی مہمان خصوصی تھیں اس کے علاوہ سفارتخانے کا اسٹاف اور مسلم مسیحی پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ڈچ کمیونٹی نے بھرپورانداز میں شرکت کی۔ اس پروگرام میں ہالینڈ ادرو چرچ کی جانب سے دی لیوینگ اسٹون اردو چرچ کےمیمبرزکو بھی دعوت دی گئ تھی ۔ راقم الحروف کا تعلق بھی دی لیوینگ اسٹون اردو چرچ سے ہے مجھے بھی اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ ظاہر ہے کم وقت میں اپنی بات مکمل کرنا مشکل تھا مگر جتنا کہہ سکا کہا باقی اس تحریر کی صورت میں آپ کی نظر ہے۔
میں نے کوشش کی کہ دنیا کے سامنے آسان لفظوں میں یہ بات رکھی جائے کہ بھارت اس وقت پاکستان کے خلاف جو شرمناک کھیل کھیل رہا ہے اس سے بچنے کے لئے دعا بھی کی جائے اور ساتھ ہی عملی طور پر ہمارا دفتر خارجہ بین الاقوامی کمیونٹی کو بھارت کا اصلی اوربھیانک چہرہ بھی دکھائے۔ بھارت نے پاکستان کی گوادر پورٹ کے خلاف سازش کا آغاز تو 2007 سے ہی کر دیا تھا جب اس کی بنیاد جنرل پرویز مشرف نے رکھی تھی۔ کیونکہ اس بندرگاہ کی جغرافیائ اہمیت بہت زیادہ ہے۔ گوادر پورٹ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی گرم ہے یہ خصوصیات دنیا کی بہت ہی کم بندرگاہوں کی ہیں، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے یوں تجارت اور مختلف اشیاء کو براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی،گوادرپورٹ خلیج عرب میں واقع ہے اور آبنائے ہرمزکے قریب ہے۔ یہ وہ آبی گُزرگاہیں ہیں جہاں سے اوپیک ممالک سے دنیا کا ایک تہائ تیل دنیا کے مختلف ممالک میں سُپلائ کیا جاتا ہے۔
Terrorism in Balochistan
گوادر پورٹ بلوچستان میں واقع ہے۔ بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کو ہوا دے کر کے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔ دوسری جانب اپنے ملک میں دہشتگردی کے ڈرامے رچا کرپاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ایران میں اربو ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ وہ دراصل ایک تیر سے کئ نشانے لگانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ چین نے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کا ایک عظیم الشان منصوبہ بنایا ۔ اس منصوبے سے نا صرف پاکستان بلکہ چین کا بھی بہت فائدہ ہو گا اور مجھے یہ کہنے میں کوئ ہچکچاہٹ نہی کہ سی پیک منصوبہ چین کے لئے پاکستان سے بھی زیادہ اہم اور فائدہ مند ہے اس منصوبے کے تحت جو راہداری گوادر سے کاشغر جو کہ زینگ جیانگ صوبے میں واقع ہے تک بنے گی اس کا فاصلہ تقریبا تین ہزار کلومیٹر ہے ۔ چین کے لئے گوادر بندرگاہ سے نا صرف تیل بلکہ دیگر تجارت کے لئے یہ رستہ محفوظ اور چھوٹا ہے۔
جبکہ اس سے پہلے چین اپنے تیل کی ترسیل کے لئے جو راستہ استمال کرتا ہے وہ خلیج فارس سے آبنائے ہرمز، بحرہ عرب، پھر بحرہ ہند، پھر آبنائے ملاکا ، ساؤتھ چائنا سی کے بعد ہانگ کانگ سے گزرتا ہوا شینگہائ اور تیانگ زینگ پہنچتا ہے جو لگ بھگ 12 ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ان آبی گزرگاہوں میں چین کے کچھ دیگر ممالک سے مسائل بھی ہیں جیسے کہ آبنائے ملاکا جس کے ایک طرف انڈونیشیا اور دوسری جانب ملیشیا واقع ہیں اس سے آگے ساؤتھ چائنا سی جس پر چین اپنی ملکیت بتاتا ہے مگر اس سمندری راستے میں ویتنام ، فلپائین اور تایئوان اور جاپان موجود ہیں اور سب ہی اس سمندر پر اپنا حق جتاتے ہیں ۔اس پر ایک بین الاقوامی مہایدہ موجود ہے جسے یو این سی ایل او ایس کہا جاتا ہے اس کنوینشن کے تحت فلپائین نے انٹر نیشل کورٹ آف جسٹس میں جو کہ نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع ہے چین کے خلاف ایک کیس بھی کیا تھا اور فیصلہ چین کے خلاف آیا تھا۔
Gwadar Port
بھارت بلوچیستان میں دہشتگردی کے زریعے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ گوادر پورٹ تجارت کے لئے محفوظ نہی ہے۔ یہ کوریڈور گوادر سے پورابلوچیستان، پنجاب، فاٹا کا کچھ علاقہ ،گلگت بلتستان اور پھر آزاد کشمیر سے ہوتا ہوا کاشغر پہنچے گا۔ بھارت آزاد کشمیر کو متناضہ علاقہ قرار دیتا ہے اس لئے پروپیگینڈہ کر رہا ہے وہ جانتا ہے کہ گوادر پورٹ پر پاکستان اور چین کی موجودگی کا مطلب کبھی بھی جنگ کی حالت میں آبنائے ہرمز کا کنٹرول ان دونوں ممالک کے ہاتھ میں چلا جائے گا اس لئے بھارت نے ایران میں محض 74 کلومیٹر کے فاصلے پر چاہ بہارپورٹ پر 20 ارب ڈالر کی لاگت سے اپنا ٹرمنل بنا رہا ہے۔ حالانکہ آبنائے ہرمز سے بھارت میں تیل کی ترسیل براستہ گجرات میں موندلہ پورٹ اور مہاراشٹر میں ممبئ پورٹ اتنی دور نہی ہے تو پھر بھارت کا 20 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں اپنے ٹرمنلز کا کیا جواز ہے۔
اس علاقے میں اسکی سرحد نہی ہے مگر پھر بھی وہ یہاں موجود رہنا چاہتا ہے مگر پاکستان کی اپنے علاقے میں بندرگاہ پر اسے اعتراض ہے۔ بھارت میں انتہا پسندی زور پکڑ رہی ہے مگر اسے پاکستان میں انتہا پسندی نظر آ رہی ہے۔ اسے یہ اندازہ نہی ہے کہ اس کے اپنے ملک میں آزادی کی بہت سی تحریکیں جنم لے چکی ہیں۔ بس ان کے ویکسینیشن ابھی باقی ہے۔ اس کے اپنے ملک میں مسلمان اور مسیحیوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے۔ بھارت کو پاکستان میں جو امن ضرب عضب کی صورت میں ہوا ہے ایک آنکھ نہی بھا رہا ہے۔ ہمیں پاکستان کی سلامتی کے لئے یقینی طور پر دعا کرنا چاہئے مگر اس کے ساتھ ہی بھارت کی پاکستان کے خلاف خارجہ پالیسی کا جواب اسی کی زبان میں دینا چاہئے۔ ابھی تک جو بین الاقوامی صورحال سامنے آ رہی ہے۔ بھارت انٹرنیشنل کمیونٹی میں اپنا جھوٹا کیس مضبوطی سے پیش کر رہا ہے مگر ہمارے پاس کُلبوشن یادو کی موجودگی میں اپنا سچا مقدمہ بھی ٹھیک طرح سے پیش نہی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لئے دعا ضرور کریں مگر صرف دعا سے کام نہی چلے گا عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔