بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا بحران نے بھارت کی روایتی انسانی ہمدردی کو بھی بظاہر ختم کر دیا ہے۔ لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو کندھا دینے کے لیے کرائے پر افراد حاصل کرنے پڑ رہے ہیں۔
اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے یوں تو پہلے سے ہی لوگوں کو گھنٹوں انتظار کے کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے لیکن اب میتوں کو آخری منزل تک پہنچانے کے لیے کندھا دینے والے بھی نہیں مل رہے ہیں۔ اس کے بعد رقم دے کر کندھا دینے کا ‘کام‘ شروع ہو گیا ہے۔
بھارت میں کورونا وائرس کی دوسری لہر نے ایسی دہشت پھیلا دی ہے کہ اب کسی کی موت پر تعزیت اور غمگساری کے لیے آنے کی بات تو دور، ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے چند لوگوں کو تلاش کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ حتی کہ قریبی رشتہ دار بھی متوفی کو کاندھا دینے سے کترا رہے ہیں، جس کی وجہ سے میت کو شمشان گھاٹ تک پہنچانا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ ایسے میں بعض لوگوں نے کرائے پر اپنی ‘خدمات‘ فراہم کرنا شروع کردی ہیں۔ لاش کو ‘منزل مقصود‘ تک پہنچانے کے لیے پانچ سے دس ہزار روپے تک فی کس ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی متعدد تقریروں میں عوام کو ‘آپدا میں اوسر‘ (مصیبت میں موقع) تلاش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لوگ ان کے اس جملے کو اب طنزیہ طور پر استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مصیبت میں اس سے زیادہ بہتر موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔
کورونا کی وجہ سے موت کا جو رقص شروع ہوا ہے اس کی تصویروں نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔کہیں کوئی ماں اپنے بیٹے کی لاش آٹو رکشہ پر رکھ کر تو کہیں کوئی شوہر اپنی بیوی کی لاش سائیکل پر رکھ کر لے جا رہا ہے۔ انسانی بے بسی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کوئی آگے بڑھ کر ان کی مدد کے لیے نہیں آرہا ہے۔
تاریخی شہر پریاگ راج کے شیونگر محلے میں ویریش سولنکی کی جب کورونا سے موت ہوگئی توآخری رسومات کے لیے کوئی کندھا دینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ ان کے بیٹے نے لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑے مگر کسی نے مدد نہ کی۔ بالآخر کچھ لوگوں نے انہیں کرائے پر یہ خدمت فراہم کرنے والوں کے بارے میں بتایا۔
مشرقی دہلی میں بھی جب ایک خاتون کی موت ہوگئی تو رشتہ داروں کی موجودگی کے باوجود کوئی انہیں کاندھا دینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ مجبوراً ان کے بیٹے کو کاندھا دینے والوں کی ‘خدمات‘ حاصل کرنی پڑی اور وہ اسے نگم بودھ شمشان گھاٹ لے گئے۔
حالات اتنے ابتر ہوگئے ہیں کہ آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کوئی مرد نہیں مل پارہا ہے، جس کی وجہ سے گھر کی خواتین کو ہی اپنے والد یا شوہر کو’مکھ اگنی‘ دینی پڑ رہی ہے۔ ہندو رسومات کے مطابق چتا پر لاش کو بالعموم کوئی مرد ہی آگ لگاتا ہے۔
گزشتہ دنوں اترپردیش کے جون پور کی ایک ویڈیومیڈیا میں کافی وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بزرگ شخص اپنی بیوی کی لاش کو سائیکل پر رکھ کر شمشان گھاٹ لے جا رہا ہے۔ لاش سائیکل سے گر جاتی ہے لیکن گاؤں کا کوئی شخص ان کی مدد کے لیے نہیں آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے لاش کو’انتم سنسکار‘ کے لیے شمشان گھاٹ پہنچانے میں مدد کی۔
ایسے حالات میں جب کہ کورونا سے موت ہوجانے والے لوگوں کی لاشوں کو شمشان گھاٹ لے جانے اور ان کی آخری رسومات ادا کرنے میں مدد کرنے کے لیے ان کے رشتہ دار بھی تیار نہیں ہورہے ہیں ملک کے متعدد شہروں سے مسلم نوجوانوں کی طرف سے رضاکارانہ طورپر یہ خدمت انجام دینے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ مسلمان اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی سطحوں پر یہ کام کر رہے ہیں اور ان کے خدمات کی تعریف بھی ہو رہی ہے۔
محمد سراج ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں جو اپنے دوست اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جوائنٹ رجسٹرار ہیم سنگھ کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے چارسو کلومیٹر کا سفر طے کرکے ان کے گاؤں پہنچے۔ ہیم سنگھ کے رشتہ داروں نے آخری رسومات میں حصہ لینے سے منع کر دیا تھا۔ مدھیہ پردیش میں دو مسلم نوجوان اب تک سینکڑوں لاشوں کی آخری رسومات میں مدد کر چکے ہیں۔
تمل ناڈو کی ایک تنظیم مسلم مونیتر کزگم بڑے پیمانے پر یہ کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے سکریٹری مجیب الرحمان کہتے ہیں،”گزشتہ برس جب بعض لوگ دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکز سے واپس لوٹے تھے تو مسلمانوں کو وائرس پھیلانے والوں کے طور پیش کیا گیا تھا۔ ہمیں دلی تکلیف ہوئی تھی کیونکہ ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا اور خدمت کر کے ان کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔”
ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کے بعض رہنما مسلمانوں کی رضاکارانہ خدمات سے خوش نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم مودی کے آبائی ریاست گجرات میں بی جے پی کی بڑودہ یونٹ کے صدر ڈاکٹر وجئے شاہ نے شمشان گھاٹ میں ایک مسلم نوجوان کی لاشوں کی آخری رسومات میں مدد کرنے پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔