کتنے تعجب کی بات ہے کہ کشمیر جل رہا ہے اور ہم ہمیشہ کی طرح کی بے بسی کا ہی شکار نظر آتے ہیں،کشمیر کے وارث بننے کا حق بھی جتاتے ہیں اور اِس کی حفاظت اپنوں کی طرح کربھی نہیں پاتے،اِس کے لیے جو اقدامات صحیح معنوں میں حکومت وقت کو اٹھانے چاہیئے ،اُس سے گریزاں ہیںاور جن کو اٹھانے کی اتنی ضرورت نہیں،اُسی پر ہی اپناپورا فوکس کیے ہوئے ہیں، کشمیر کا مقدمہ اقوام عالم میں کیسے لڑنا اور اٹھانا، سے مکمل نابلد نظر آتے ہیں،دشمن غضب کی چال چل چکا اور ہماری کشمیر کے حوالے سے ساری سفارت کاری ہی لولی لنگڑی ہے،سہاروں اور بیساکھیوں کی محتاج،صرف اورصرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دینے والی بات ہے،ہمیں کشمیر کے حوالے سے جو اقدامات اٹھانے چاہیئے ،اُن پر ہم مشاورت مشاورت سے ہی باہر نہیں نکل پارہے ،کوئی حتمی فیصلہ نہیں لے پارہے اورجو اقدامات ہمیں اٹھانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ،صرف اور صرف وقت کا ضیاع اورگزرتے لمحوں کے ساتھ کشمیر سے ہاتھ دھونے والی بات ،اُس دل لگی والے عمل پر پورے زوروشور سے لگے ہوئے ،اُسے اپنائے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیراب تک اُس نہج پر نہیںپہنچ سکا کہ وہ حل کی جانب بڑھے یا دنیا اِس متعلق بھی سنجیدہ ہوکر سوچے۔ہمارے حکمرانوں اور کرتا دھرتا کے کشمیر بارے بیانات کشمیر کی حقیقی آزادی کی روح سے ہی خالی نظر آتے ،ہمارے جذبات اور سوچ و خیالات کے دھاروں میں پختگی اور یقین کی فضاء کی کمی،ہمارے سیاسی رہنمائوں کے کشمیر پر بیانات بے اثر اور ٹوئیٹ کسی کام کے نہ،کشمیر بنے گا پاکستان کی خواہش کانعرہ محض صرف ہونٹوں پر ،عملی طور پر اِس کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ بیحد کم ،کشمیر کشمیر کی باتیں بہت مگر اِس کے لیے حقیقی سعی بالکل نہیں،کشمیریوں کی اخلاقی ،سفارتی حمایت گلیوں ،کوچوں ،بازاروں کی حد تک پورے جوش کے ساتھ موجودمگر عملی تعاون نہ ہونے کے برابر،بھارتی ظلم وستم کی یہاںدہائیاں دیتی صدائیں بے شمارمگر اِس ظلم وجورکا راستہ بند کرنے والی آوازیں بہت کم، کشمیر کے لوگوں کی بیچارگی کے حوالے سے ہزار باتیںمگر بچائو کے لیے عملی اقدامات ایک بھی نہیں،کشمیر اور اِس کے باسیوں سے پیار بہت مگر اِن کے لیے محبت کا اظہار محض ایک خیال۔ہمارے ارباب بست وکشاد نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا مگر اسلام کی سربلندی کے لیے قوم کو نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا،اِسی طرح کشمیر کی آزادی کے لیے دعوے تو بہت کیے، نعرے تو بہت مارے مگر اِس کی آزادی و خود مختاری کے لیے عملا کچھ نہیں کیا،کشمیر کے نام پر بنی یہ سب کمیٹیاں، ہوتے سیمینار ،اجلاس ،قوم اورخوداپنے آپ سے ایک دھوکا اور مذاق ہیں۔
یکجہتی کشمیر کے نام پر لمبے ہاتھوں کی بنی ہوئی زنجیر نما ریلیاں، جلسے و جلوس، کانفرنسز ،تقاریر ، مباحثیں،باتیں سب بے کار،دل کا ایک بہلاوہ اورکھیل ہیں۔کیا ملا اب تک اِس عمل سے؟کیا آپ کے اِس طریقے ،حربے سے کشمیر بن گیا پاکستان؟کشمیریوں کی تکالیف ودرد میں کوئی کمی واقع ہوئی؟وہاں شہادتوں کا سلسلہ رک گیا کیا؟کیا وہاں امن پیدا ہوگیا؟کیا وہاں کی ہر ماں ،بہن ،بیٹی کی عزت لٹنے کا عمل رک چکا ؟کیا وہاں ظلم وبربریت کی روک تھام ہوگئی؟بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں کی پلیٹ گنز سے بینائیاںچھیننے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکاکیا؟کیا وہاں ہر طرح کے حالات ٹھیک ہوگئے کیا؟ اگر جواب ”ہاں ”میں ہے تو جو جی میں آتا ،کرتے جائو،اگر جواب” ناں ”میں ہے تو سوچوغلطی کہاں پر ہے، اُن غلطیوں کا ازالہ کرو،کون دشمن کون دوست کی پہچان کرو،اگر ایسا کرلیاتو سب کچھ ملے گا سب ٹھیک ہوجائے گا،اگر ایسا نہ کرپائے تو پہلے کی طرح اندھیر ہی اندھیر ہے، جس میں امن کی آشاہیں نہیں پھوٹاکرتی ،حالات میں بہتری نہیں آیا کرتی ۔اگر کشمیر چاہیئے تو اِس کے لیے جگ ہنسائی پر مبنی اقدامات،غیرت کو مار دینے والے کام اور جہاد سے روگردانی جیسے عمل سے رکنا ہوگا اور یہ کہ دور حاضر کے اپنے بدترین دشمن بھارت پر اپنی ہر طرح کی نوازشات کا دروازہ بند کرنا ہوگا،اُس سے ہر طرح کا تعلق توڑنا ہوگا،اگر چاہتے کہ کشمیر آزادہوتو بھارت کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا،کوئی بھی جگہ،مقام ،سرنگ ایسی نہیں چھوڑنی ہوگی ،جس سے جانے انجانے میںبھارت سانپ بن کر ہمیں پھر سے ڈس لے،بھارت کے مکمل بائیکاٹ میں ہی کشمیر کی آزادی ہے۔
جب بھارت کی مشکلات بڑھے گی اورپاکستان نے اُس کا حقہ پانی بند کیا ہوگا تو پھر عالم مجبوری میں وہ بھی کشمیر کی بات کریں گے جو ،اب تک اِس پر بات نہیں کررہے یا سن نہیں رہے،وہ بھی کشمیر کشمیر پکاریں گے جو اِس کاکسی عالمی کانفرنس میں نام لینا پسند نہیں کرتے۔ کشمیر باتوں،مباحثوںاور اپنی بے بسی کے رونے دھونے اور اُس کا شور وواویلا کرنے سے عالمی توجہ کا مرکز نہیں بنے گابلکہ بھارتی مکمل بائیکاٹ سے دنیا کی توجہ پائے گا،جس کے لیے وقتی طور پر اپنی تمنائوں اور خواہشوں کا خون کرنا پڑتا،پاپی پیٹ جس کا من کبھی نہیں بھرتا کو سمجھانا پڑے گااور یہ کہ کل وقتی مفادات کے لیے ہوس و لالچ اور پیسوں کی ہوس کی پجاری ”پا پی جیب”کو شٹ اپ کال دیتے اِس کے منہ کو بندکرنا ہوگا،پھر جاکر ہی آپ کو آپ کے کیے کا مثبت پھل ملے گا اور اُس کے ثمرات بھی میسر آئیں گے،اِس کے علاوہ اور کوئی رستہ کشمیر کی آزادی کی طرف نہیں جاتا، مجھے تو حیرت ہوتی ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ٹوئیٹ پر کہ ”کشمیر کے آزاد ہونے تک ٹوئیٹ کرتا رہوں گا”اور یہ کہ” قوم جمعہ کے دن کشمیریوںسے یکجہتی کے لیے آدھا گھنٹہ باہر بطورِ احتجاج نکلے”،مطلب پاکستان کاپوری دنیا میں کشمیر کے حوالے سے ”صف ماتم ”بچھانے کا مستقلاپورا پورا ارادہ ہے مگر کشمیر خود کی کوششوں سے آزاد ہوجائے ،کا ذرا سا بھی خیال نہیں۔ کیسے عجیب لوگ ہیںجب کشمیر ہاتھ میں تھا تو اِسے حاصل کرنے کی فکر میں جان نہ کھپائی اور جب اپنی حماقتوں کے باعث ہاتھ سے نکل گیا یا تیزی سے کھسک رہا تو ملک دیوالیہ ہونے کے ڈر کے خدشے کے پیشِ نظر ہر تھاں تے مدد مدد کرنے کی طرح کشمیر ہاتھوں میں نہ رہنے پر اب ہر ملک ،ہرمقام ،ہر جگہ،ہر محفل میں عالمِ بے بسی میں قرآن پاک کی تعلیمات اور جہاد کا فلسفہ بھلائے کہتے پھر رہے ہیں کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان”۔اللہ کرے کہ کشمیر بنے پاکستان لیکن اِس میں دعوئوں سے زیادہ حقیقت کا رنگ بھرنا ہوگا ،ہر شخص کو محمد بن قاسم بننا ہوگا ،پھر ہی جاکر کشمیر بنے گا پاکستان اور وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ،جس کا خواب برسوں پہلے ہمارے بڑے،عظیم لیڈرقائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔#