چین (اصل میڈیا ڈیسک) چینی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس بھارتی افواج کے ساتھ سرحد پر مختلف جھڑپوں میں اس کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بیجنگ نے اپنے جانی نقصان کو عوامی سطح پر پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے۔
بھارت نے جون 2020ء میں لداخ سے جڑے قراقرم پہاڑی سلسلے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں اپنے بیس فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ یہ فائرنگ کے تبادلے والی روایتی لڑائی نہ تھی بلکہ بھارت اور چین کی سرحد پر تعینات فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔ ایک دوسرے کو مکے مارے گئے اور پتھراؤ کے ساتھ ساتھ ڈنڈوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ چین نے بھی اس لڑائی میں اپنی فوجی کھوئے ہیں لیکن چین نے اس بارے میں خاموشی اختیار رکھی اور کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ مزید کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا۔
اب جب کہ دونوں ممالک کئی مذاکراتی دوروں کے بعد اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو چین کی جانب سے جھڑپوں میں چار فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
‘پیپلز لبریشن آرمی’ اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہلاک شدہ چار فوجیوں کے ناموں کو ریاست کے شہیدوں کی فہرست میں ڈالا دیا گیا ہے۔
چین کی جانب سے ہلاک ہونے والے بٹالین کمانڈر کو ‘سرحد کا دفاع کرنے والے ہیرو’ کا خطاب دیا گیا ہے۔ باقی تین ہلاک شدہ فوجیوں کو بھی اعلیٰ ترین ایوارڈز دیے گئے ہیں۔
کچھ ابتدائی رپورٹس کے مطابق بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے چینی فوجیوں کی تعداد 45 تک بتائی گئی تھی۔ بھارتی فوج کے شمالی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جوشی کا کہنا ہے کہ بھارتی مبصرین نے 60 چینی فوجیوں کو اسٹریچر پر لے جاتے دیکھا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے ہلاک ہوئے تھے۔ جنرل جوشی نے ایک بھارتی نیوز چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ انتہائی سخت رویہ رکھا گیا تھا جب تک کہ بھارت نے اگست میں کیلاش رینج پر قبصہ نہیں کر لیا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور 10 فروری کو لڑائی سے پیچھے ہٹنے کا معاہدہ ہوا۔ ” اب سرحدی کشیدگی ختم ہو رہی ہے کیوں کہ ہم نے کیلاش رینج میں عسکری کامیابی حاصل کر لی ہے اور مقصد حاصل ہو گیا۔ اب ہم اپریل 2020ء کے اسٹیٹس کو پر واپس جا رہے ہیں۔”
یہ واضح نہیں ہے کہ چین کی جانب سے اس وقت فوجیوں کی ہلاکتوں کا اعلان کیوں کیا گیا ہے۔ لیکن چین کی کمیونسٹ جماعت کے اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق حکومت فوجیوں کی ہلاکتوں سے متعلق قیاس آریائیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ان الزمات کو بھی رد کرنا چاہتا ہے کہ چینی فوجی لڑائی کے ذمہ دار ہیں۔
قراقرم پہاڑی سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کا آغاز گزشتہ سال مئی میں ہوا۔ یہاں دونوں ممالک کم از کم آٹھ پہاڑیوں کو اپنے ملک کا حصہ مانتے ہیں۔ جون تک کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان 1962ء کی سرحدی جنگ کے بعد سے صورتِ حال میں پیدا کشیدگی کم نہیں ہوئی اور ابھی تک بھارتی اور چینی فوجی پہاڑی سلسلے میں واقع ایل اے سی یا سرحد پر تعینات ہیں۔