بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی متنازع شہریت بل 2019ء پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن اس بل کے خلاف ملک گیر پیمانے پر احتجاج شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
بھارت کے متنازع شہریت بل 2019ء کو قانونی شکل اختیار کرنے کے لیے اب صرف بھارتی صدر کے رسمی دستخط باقی رہ گئے ہیں۔ لیکن اس درمیان ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں اور بالخصوص شمال مشرقی ریاستوں میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ کئی ریلوے اسٹیشنوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔
سب سے زیادہ کشیدہ صورت حال سرحدی ریاست آسام میں ہے، جہاں مختلف علاقوں سے تشدد اور پولیس فائرنگ میں متعدد لوگوں کے زخمی ہونے اور ہلاکتوں کی غیر مصدقہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔
منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں بھی صورت حال انتہائی ہنگامہ خیز ہے۔ ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں بھی صورت حال انتہائی ہنگامہ خیز ہے۔ ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ متعدد پروازیں اور ٹرینوں کی آمد و رفت منسوخ کر دی گئی ہے۔ یونیورسٹیوں کے امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مغربی بنگال میں جادھو پور یونیورسٹی اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ نے بڑے پیمانے پر جلوس نکال کر شہریت بل کی مخالفت کی ہے۔
آسام میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کرا دی ہے۔ مشتعل مظاہرین نے آر ایس ایس کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگانے کی کوشش کی۔
آسام کے وزیر اعلٰی سونووال اور وفاقی وزیر رامیشور تیلی کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ڈبرو گڑھ میں لوگوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کرنا پڑی جس میں کئی افراد زخمی ہو گئے۔
نیم فوجی دستوں کے پانچ ہزار جوان آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ فوج مختلف علاقوں میں فلیگ مارچ کر رہی ہے۔
بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان شہریوں کو یہ خدشہ ہے کہ اس قانون کا اصل ہدف انہیں بنایا جائے گا۔ کیوں کہ حکومت نے کہا ہے کہ اس نئے قانون کے بعد شہریت رجسٹر کا قانون لایا جائے گا۔ جس کے تحت ہر مسلمان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک کا حقیقی شہری ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مغربی بنگال میں جادھو پور یونیورسٹی اور دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ نے بڑے پیمانے پر جلوس نکال کر شہریت بل کی مخالفت کی ہے۔
اگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے حراستی مراکز میں بھیج دیا جائے گا۔ اس کے برخلاف نئے شہریت قانون کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگوں کو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہو گی بلکہ انہیں آسانی سے شہریت مل جائے گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹوئیٹ کر کے لوگوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ انہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا، ”کوئی بھی آپ کا حق، آپ کی خصوصی شناخت اور خوبصورت کلچر آپ سے نہیں چھین سکتا، میں آسام کے بہنوں اور بھائیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں شہریت بل سے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
کانگریس نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا، ”مودی جی آسام میں تو انٹرنیٹ ہی بند ہے آپ کا ٹوئیٹ لوگ کیسے پڑھیں گے؟‘‘
راجیہ سبھا میں کئی گھنٹوں تک زوردار بحث کے بعد متنازع شہریت بل بدھ 11 دسمبر کو منظور کرلیا گیا۔ لوک سبھا سے یہ بل پہلے ہی منظور ہو چکا ہے۔ اس بل کے ذریعے سن 2015 سے قبل پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی بنیادوں پر زیادتی کا نشانہ بننے کی وجہ سے بھارت آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور مسیحی فرقہ کے لوگوں کو بھارت کی شہریت دی جائے گی۔ لیکن مسلمانوں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
بل کی منظوری کے بعد کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے کہا، ”بھارت کی آئینی تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن ہے۔ شہریت بل کی منظوری بھارت کی کثیر الجہتی شناخت پر تنگ نظری اور متعصبانہ ذہنیت کے حامل افراد کی جیت ہے۔”
سول سوسائٹی کی تنظیموں کے علاوہ متعدد مسلم تنظیموں نے بھی کل جمعہ 13 دسمبر کو ملک گیر احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ یہ بل بھارتی آئین میں مساوات اورسیکولرازم کے بنیادی اصولوں کے صریح خلاف ہے۔ تاہم وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والا نہیں ہے۔ اس قانون کی وجہ سے مذہبی بنیاد پر زیادتی کا شکار ہو کر بھارت آنے والے لوگوں کو شہریت ملے گی جن کے لیے اپنے ممالک میں اپنی جان بچانا، اپنی ماؤں بہنوں کی عزت بچانا مشکل ہے۔
شہریت بل کو منظور کرانے کے ساتھ ہی بی جے پی نے اپنی مربی جماعت آر ایس ایس کے تین اہم ایجنڈے پورے کردیے ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، تین طلاق کو غیرقانونی قرار دینا اور شہریت قانون شامل ہیں۔ اب بی جے پی یکساں سول کوڈ کی طرف آگے بڑھ سکتی ہے جس کا اس نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ آبادی پر کنٹرول کے لیے قانون سازی بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں شہریت بل کے حوالے سے جاری مظاہروں کے تناظر میں بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے ٹی وی چینلوں کو تشدد کی خبریں نشر کرنے میں احتیاط برتنے کی ہدایت دی ہے۔ اپوزیشن نے اسے ایمرجنسی کے دور جیسی سنسرشپ اور میڈیا کو دھمکانے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری طرف کئی جماعتوں نے شہریت بل کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے جبکہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کے علاوہ متعدد مسلم تنظیموں نے بھی کل جمعہ 13 دسمبر کو ملک گیر احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔