اترپردیش (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، اترپردیش کے بعد بھارتی ریاست آسام میں بھی ہزاروں افراد نے قانون کیخلاف احتجاجی ریلی نکالی۔
بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں اور ریاست اترپردیش میں اب بھی دفعہ 144 نافذ ہے جبکہ پرتشدد احتجاج میں ہلاک ہونے والے مظاہرین کے لواحقین غم سے نڈھال ہیں۔
خیال رہے کہ اترپردیش میں اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 6 ہزار سے زائد افراد جیلوں میں بند ہیں اور پولیس نے سوشل میڈیا پر احتجاجی پوسٹ کرنے پر بھی 120 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔
متنازع قانون کے خلاف کانگریس نے آسام میں بڑی ریلی نکالی جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے جبکہ ریلی سے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے خطاب کیا۔
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نفرت پھیلار ہی ہے، شہریت ترمیمی قانون نوٹ بندی سے دوگنا خطرہ ہے، بھارت میں اب سب کو ہندوستانی ثابت کرنے کا کہا جائے گا۔
بھارتی ریاست اترپردیش کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں میرٹھ سٹی کے ایس پی اکھلیش نرائن احتجاج کرنے پر مسلمان شہریوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایس پی دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہاں کھاتے ہو اور تعریف کسی اور کی کرتے ہو، بھارت میں نہیں رہنا چاہتے تو پاکستان چلے جاؤ‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ یہ گلی مجھے یاد ہو گئی ہے اور جب مجھے یاد ہو جاتی ہے تو میں نانی تک پہنچ جاتا ہوں‘۔
اس حوالے سے کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کے آئینی اداروں میں بھی اتنی فرقہ وارانہ نفرت گھول دی ہے کہ اعلیٰ افسران کو بھی اپنے آئینی عہدے کا کوئی پاس ولحاظ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا آئین کسی بھی شہری کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کی اجازت نہیں دیتا اور جب آپ بڑے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔
یاد رہے کہ بالی وڈ اداکارہ سوارا بھاسکر بھی بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف میدان میں آئی ہیں اور احتجاج میں بھی حصہ لیا ہے۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔