نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت کے منظور کردہ شہریت کے نئے مگر متنازعہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔اتوار کے روز سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور تشدد کے واقعات میں مزید چھے افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام نے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے مختلف مشرقی شہروں میں کرفیو نافذ کررکھا ہے جبکہ احتجاج کی تشہیر روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر بھی پابندی عاید کررکھی ہے۔
بھارت کی مشرقی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں صورت حال سخت کشیدہ بتائی جاتی ہے۔اس شہر میں فوجی اپنی گاڑیوں پر گشت کررہے ہیں۔گوہاٹی میں آج قریباً پانچ ہزار افراد نے شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔وہ اس کے خلاف اور آسام کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔کسی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سیکڑوں پولیس اہلکار تعینات تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں احتجاجی مظاہروں کے بعد کرفیو کے نفاذ سے تیل اور گیس کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ آج دن کے وقت کرفیو میں نرمی کی گئی تھی اور بعض دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔
واضح رہے کہ بھارتی پارلیمان نے گذشتہ بدھ کو شہریت کے نئے متنازعہ قانون کی منظوری دی تھی۔اس کے تحت بھارت میں تین ہمسایہ ممالک سے 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دے دی جائے گی لیکن اگر وہ مسلمان ہوں گے توانھیں یہ حق نہیں دیا جائے گا۔
حکام کے مطابق آسام میں پولیس کی فائرنگ سے چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔مظاہرین نے احتجاج کے دوران میں ایک دکان کو نذر آتش کردیا تھا۔اس میں ایک شخص سویا ہوا تھا اور وہ زندہ جل مرا ہے۔ایک شخص لوگوں کے تشدد سے جان کی بازی ہار گیا ہے۔
ریاست مغربی بنگال میں بھی متنازعہ قانون کے خلاف آج مسلسل تیسرے روز مظاہرے جاری ہیں۔اس ریاست کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی نے متنازعہ قانون کی منظوری پر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انھوں نے ریاست کے متعدد اضلاع میں انٹرنیٹ کی سروسز کو معطل کردیا ہے۔
بھارت کے مشرقی علاقوں میں مظاہرین نے مرکزی شاہراہوں اور ریلوے کی پٹڑیوں پر دھرنا دے رکھا ہے ۔انھوں نے متعدد بسوں اور ٹرینوں کو آگ لگادی ہے اور بعض حصوں میں ٹرین سروس معطل کردی گئی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے مظاہرین سے پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے اور انھیں یہ تسلی دینے کی کوشش کی ہے کہ نئے متنازعہ قانون سے شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی ثقافتیں خطرے سے دوچار نہیں ہوں گی۔ان ریاستوں کے باشندوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ نئے قانون کے تحت پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد کو بھارت کی شہریت حاصل ہوجائے گی۔
بھارت کی اسلامی جماعتوں اور تنظیموں ، حزب اختلاف اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ نیا متنازعہ قانون وزیراعظم نریندرمودی کے ہندتوا کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کے بیس کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور انھیں ان کے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔
انسانی حقوق کے مختلف گروپوں اور مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت نے اس قانون کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ یہ قانون بھارت کے آئین اور سیکولر روایات کے منافی ہے۔ریاست آسام میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی جماعت نے بھی اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ اس نے پارلیمان میں اس بل کی حمایت کی تھی۔