بھارت کا چھٹا بڑا شہر چنئی: پیاس اتنی کہ ’واٹر ٹرینیں‘ چلانے کا فیصلہ

Water

Water

نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے جمعہ اکیس جون کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق چنئی شہر کو اس وقت پانی کے اس قدر شدید بحران کا سامنا ہے کہ حکام نے ایک ایسے وقت پر، جب گرمیوں کا موسم اپنے عروج پر ہے، اس شہر میں پانی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایک ہنگامی اجلاس میں چنئی کے لیے پانی کے ٹینکروں سے لدی خصوصی ریل گاڑیاں چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ریاست تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایداپادی پالانی سوامی کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب ریاست کے دیگر حصوں سے واٹر ٹینکروں سے لدی ایسی ریل گاڑیاں چنئی کی طرف چلائی جائیں گی، جو مجموعی طور پر روزانہ دس ملین لٹر تک پانی اس شہر میں پہنچائیں گی۔ یہ ٹرینیں یہ پانی ویلور شہر سے ٹینکروں میں چنئی لائیں گی۔

اس کے علاوہ چنئی سے تقریباﹰ 200 کلومیٹر دور واقع ویرانم جھیل سے بھی پانی پائپوں کے ذریعے ریاستی دارالحکومت تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن چونکہ یہ پانی بھی اس شہر اور اس کے باسیوں کی بہت گرمی میں شدید پیاس بجھانے کے لیے کافی نہیں ہو گا، اس لیے ریاستی حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ چنئی کے لیے 200 ملین لٹر روزانہ کی وہ واٹر سپلائی بھی بڑھا دی جائے گی، جو نمکین پانی کو صاف کر کے یقینی بنائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ ہمسایہ ریاست کیرالا سے بھی درخواست کر دی گئی ہے کہ وہ بھی تامل ناڈو اور چنئی کو اضافی پانی مہیا کرے۔

چنئی بھارت کا آبادی کے لحاظ سے چھٹا سب سے بڑا شہر ہے، جہاں 4.5 ملین لوگ رہتے ہیں۔ اس شہر کو پانی کی کمی کا سامنا تو ویسے ماضی میں بھی رہتا تھا لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تو یہ کمی نئی انتہاؤں کو پہنچ گئی ہے۔ آج کل اس شہر میں ایسے لاکھوں شہری بھی نظر آتے ہیں جو حکومت کی طرف سے مہیا کردہ ٹینکروں سے اپنے لیے پانی لینے کی خاطر خالی برتن ہاتھوں میں لیے کئی کئی گھنٹوں تک قطاروں میں انتظار کرتے رہتے ہیں۔

چنئی میں نلوں میں پانی بھی ختم ہو چکا ہے اور بہت سے ریستوراں تک اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بھارتی ٹیلی وژن ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق اس شہر کو پانی کی اتنی شدید قلت کا سامنا اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ وہاں گزشتہ چند برسوں سے بارشیں بہت کم ہو چکی ہیں اور شہر میں پانی کے زیر زمین ذخائر بھی انتہائی کم ہو چکے ہیں۔

بھارت میں جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھی، ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ اس کے کسی بہت بڑے شہر یا ریاست میں پانی کی اتنی شدید قلت پیدا ہوئی ہو۔ اس سے قبل 2016ء میں مغربی ریاست مہاراشٹر میں بھی حکومت کو عوام کو پانی مہیا کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرنا پڑے تھے۔

گزشتہ برس بھارتی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس ملک کو اس کی تاریخ کے پانی کے بدترین بحران کا سامنا تھا اور 600 ملین شہری (پوری یورپی یونین کی آبادی سے بھی زیادہ) ایسے تھے، جنہیں ‘بہت زیادہ سے لے کر انتہائی حد تک‘ پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گہا تھا کہ بھارت میں ہر سال تقریباﹰ دو لاکھ تک انسان پینے کے صاف پانی تک ناکافی رسائی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔