یہ حقیقت ہے کہ آزادہ ندوستان اپنے آئینی شناخت کے اعتبار سے کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کا ملک نہیں رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دستور ہندکی تمہید کو We the people of Indiaیعنی ‘ہم بھارت کے لوگ’کے جملے سے شروع کیا گیا ہے۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بھارت یا ہندوستان کسی خاص نظریہ سے وابستہ افراد کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص اورگروہ کے لیے ہے جو ہندوستان کا شہری ہے،جو یہاں پیدا ہوا ہے،اور جس نے اس ملک کی بقا و ترقی میں راست یا بلاوسطہ کردار ادا کیا ہے یا آئندہ مستقبل میں کرے گا۔ہندوستان اور ہندوستانی آئین کی ایک دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں ریاست کی سطح پر مختلف گروہ ، افراد اورمذاہب کے ماننے والوں کو بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں،جس کے تحت وہ اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اور اپنے مذہب سے وابستہ رہتے ہوئے بنا کسی دبائو کے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے کی فلاح و بہبود اور آزادی کی اقدارکو آزاد ہندوستان کے مقاصد میں شامل کیا گیا ہے۔آئین ہند کی اسی تمہید کے سلسلے میں ارنیسٹ بیکر نے کہا تھا کہ تمہید آئین،دراصل بھارت کے دستور کا نچوڑ ہے۔جبکہ بھارگو نے کہا تھا کہ تمہید آئین کی روح ہے۔اسی ضمن میں سپریم کورٹ نے 1973کے پیشوا نند بھارتی کیس میں کہاتھا کہ تمہیدیہ دستور کا جزو لاینفک ہے۔اور اسی تمہید میں سارے آئین کو بہ مصداق سمندر کو کوزے میں سمایا گیا ہے ۔جس کی بنیاد پر ہم بھارت کے شہری حقیقی آزادی کا تصور کر سکتے ہیں۔
ہندوستانی آئین کی تشکیل کی تاریخ پر اگر آپ نظر ڈالیں گے تو محسوس ہوگا کہ یہ مسودہ جو آج ہمارے ہاتھوں میں دستور ہند کی شکل میں موجود ہے اسے مختلف مراحل سے گزارتے ہوئے محنت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے تجربات 1919کے غیر اطمینان بخش مونٹیگـچیمسفرڈ اصلاحات (پہلی جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد تاج برطانیہ نے اپنی ہندوستانی رعایا کے لیے جنگ میں ان کے شاندار خدمات کے اعتراف کے طور پر اصلاحات اور مراعات کا ایک نیا پیکج دیا تھا۔یہ نیا پیکج اس وقت کے وزیر ہند مانٹیگو اور برطانوی ہند کے گورنر جنرل چیمسفورڈ نے مل کر مرتب کیا تھا۔ برٹش پارلیمنٹ نے ان اصلاحات کے بل کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کے نام سے پاس کیاتھا۔ لیکن یہ عام طور پر مانٹیگو۔ چمسفورڈ اصلاحات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)اور ہندوستان کی تحریک آزادی میں گاندھی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے شہری حقوق کے مطالبات کے متعلق تحریک آزادی کے رہنماؤں کے نقط نظر میں قابل ذکر تبدیلی آئی تھی جس کے نتیجہ میں شاید ان کی توجہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان مساوات کا حق مانگنے کی بجائے تمام ہندوستانیوں کی آزادی کو یقینی بنانے پر مرکوز ہو گئی تھی۔1925 میں اینی بیسنٹ کی جانب سے تیار کردہ ہندوستان کے دولت مشترکہ بل میں سات بنیادی حقوق کا خاص طور پر مطالبہ کیا گیا تھا۔i) انفرادی آزادی،ii) ضمیر کی آزادی،iii) اظہار رائے کی آزادی،iv) اجتماع کی آزادی،v) جنسی بنیاد پر عدم تفریق،vi) بنیادی تعلیم اورvii) عوامی مقامات کے استعمال کی آزادی۔بعد 1927 میں کانگریس نے ظلم و ستم پر نگرانی رکھنے والے حقوق کے اعلامیہ کی بنیاد پر ہندوستان کے ”آئین سوراج” کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی تھی۔جسے 1928 میں موتی لال نہرو کی قیادت میں 11 رکنی کمیٹی کی شکل میں قائم کیا گیا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تمام ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت سمیت متعدد سفارشات پیش کیں تھیں۔ یہ سفارش کردہ بنیادی حقوق امریکی آئین اور جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک کے اختیار کردہ حقوق سے مشابہ تھے، چنانچہ ان میں سے بہت سے حقوق 1925 کے بل کے ذریعہ اختیار کر لیے گئے۔ بعد ازاں ان میں سے متعدد دفعات کو بنیادی حقوق اور رہنما اصولوں سمیت آئین ہند کے مختلف حصوں میں جوں کا توں شامل کر لیا گیا۔
1931 میں انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے کراچی اجلاس میں استحصال کے خاتمہ، سماجی تحفظ کی فراہمی اور اصلاحات زمین کے نفاذ جیسے مقاصد پر مشتمل اعلان کے ساتھ خود کو شہری حقوق اور اقتصادی آزادی کی حفاظت کے تئیں وقف کرنے کی ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد میں دیگر نئے مجوزہ حقوق میں ریاستی ملکیت کی ممانعت، حق رائے دہی، سزائے موت کے خاتمے اور اور آمد و رفت کی آزادی جیسے حقوق شامل تھے۔ جواہر لال نہرو کی جانب سے تیار کردہ قرارداد کے اس مسودے میں جو بعد میں بہت سے رہنما اصولوں کی بنیاد بنا، سماجی اصلاح کے نفاذ کی بنیادی ذمہ داری ریاست پر ڈالی گئی اور اسی کے ساتھ تحریک آزادی پر اشتراکیت اور گاندھی فلسفہ کے اثرات بڑھنے لگے۔ تحریک آزادی کے آخری مرحلے میں 1930کی دہائی کے اشتراکی اصولوں کی تکرار نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ہی توجہ کا اصل مرکز اقلیتی حقوق ، جو اس وقت تک ایک بڑا سیاسی مسئلہ بن چکا تھا ، بن گئے جنہیں 1945 میں سپرو رپورٹ میں پیش کیا گیا۔ اس رپورٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دینے کے علاوہ ”قانون ساز ادارہ، حکومت اور عدالتوں کے لیے معیار اخلاق” کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
برطانوی راج کے آخری مرحلے کے دوران ہندوستان کے کابینی مشن، 1946 نے اقتدار کی منتقلی کے سلسلہ میں آئین ہند کی تشکیل کے لیے ایک قانون ساز کمیٹی کی تجویز پیش کی۔ برطانوی صوبوں اور نوابی ریاستوں سے براہ راست منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی نے دسمبر 1946 میں اپنی کارروائی شروع کی اور نومبر 1949 میں آئین ہند کا مسودہ مکمل کیا ۔ کابینی مشن کے منصوبے کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ، قبائلی علاقوں کے انتظام اور بنیادی حقوق کی نوعیت اور حد پر مشورہ دینے کے لیے ایک مجلس مشاورت کا قیام ہونا تھا۔ چنانچہ جنوری 1947میں 64 رکنی مجلس مشاورت بنائی گئی، بعد ازاں ان ہی میں سے فروری 1947 میں بنیادی حقوق کی تشکیل کے لیے جے بی کرپلانی کی صدارت میں 12 رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ذیلی کمیٹی نے بنیادی حقوق کا مسودہ تیار کیا اور کمیٹی کو اپریل 1947 تک اپنی رپورٹ پیش کردی جسے بعد میں اُسی مہینہ کمیٹی نے اس کو اسمبلی کے سامنے پیش کیا، جس پر ایک سال تک بحث اور گفت و شنید ہوتی رہی اور دسمبر 1948میں مسودے کے بیشتر حصوں کو منظوری دے دی گئی۔ ہندوستانی آئین میں بنیادی حقوق کو تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے حصہ سوم میں وضاحت کے ساتھ درج ہے کہ یہ حقوق نسل، جائے پیدائش، ذات، عقیدہ یا جنسی امتیاز سے قطع نظر ہر شہری پر نافذ اور مخصوص پابندیوں کی تابع عدالتوں کی طرف سے قابل نفاذ ہیں۔
ریاستی پالیسی کے رہنما اصول حکومت کی جانب سے قانون سازی کی ہدایات پر مشتمل ہیں۔ آئین ہند کے حصہ چہارم میں مذکور اصول عدالتوں کی جانب سے قابل نفاذ نہیں ہیں، لیکن جن اصولوں پر یہ مبنی ہیں، وہ حکومت کے لیے بنیادی ہدایات کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے متعلق امید ظاہر کی گئی ہے کہ ریاستی قانون سازی اور منظوری میں ان پر عمل کیا جائے گا۔اس پس منظر میں آئین ہند کی شناخت اور حیثیت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد،ہم سب ہندوستانیوں کامن پروگرام ہونا چاہیے اس کے باجود کہ ہم اپنی منفرد حیثیت کو بھی نہیں کھونا چاہتے اور اس کا حق بھی ہمیں ہندوستانی آئین ہی فراہم کرتا ہے۔اور غالباً یہی پیغام راہل گاندھی کے اس خط میں بھی جھلکتا ہے جبکہ وہ اپنا استعفیٰ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بھارت کبھی ایک سر والا نہیں رہا،یہاں کئی سروں کی شمولیت رہی ہے،اوریہی بھارت کی شناخت ہے!