بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنے والدین سے محروم ہوجانے والے بچوں کی مدد کے لیے حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان بچوں کی بردہ فروشی اور استحصال کا خطرہ برقرار ہے۔
کووڈ انیس کی وبا نے پورے بھارت میں لاکھوں خاندانوں کو تباہ کردیا ہے، ہزاروں بچے یتیم ہوگئے ہیں یا ان کی دیکھ بھال کے لیے والدین میں سے کوئی ایک ہی رہ گیا ہے۔
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قومی کمیشن (این سی پی سی آر)کے مطابق کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد گزشتہ سال سے اب تک نو ہزار سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں۔ 1700سے زائد بچے ماں اور باپ دونوں سے محروم ہوگئے ہیں جبکہ 7400 بچے والدین میں سے کسی ایک سے محروم ہوگئے اور 140 بچوں کے والدین کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں ہے۔
این سی پی سی آر نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کو کورونا وائرس کی وبا کے دوران یتیم ہوجانے والے بچوں اور ان کی ہنگامی نیز طویل مدتی ضرورتوں کے حوالے سے تفصیلات پیش کیں۔ رپورٹ کے مطابق یتیم ہوجانے یا دونوں میں سے ایک سرپرست کھودینے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد (2110) اترپردیش میں ہے۔اس کے بعد بہار میں (1327) اور کیرالا میں (925) بچے کسی ایک سرپرست سے محروم ہو چُکے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق یتیم ہوجانے والے بچوں کی اصل تعداد سرکاری اعدادو شمار سے بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ ہفتے یتیم بچوں کی امداد کے لیے فی کس دس لاکھ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔ متعدد ریاستوں نے بھی اپنے طورپر امداد دینے کا کا اعلان کیا ہے۔
بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں، بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والی ایجنسیوں اور بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا تاہم کہنا ہے کہ صرف مالی امداد کا وعدہ کرنا ہی وباکی وجہ سے ان متاثرہ بچوں کے مستقبل کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مالی پیکج بالعموم سرکاری ضابطوں کی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ حقیقی متاثرین تک مالی امداد پہنچ نہیں پاتی اور متاثرین پیچیدہ طریقہ کار اور ضروری دستاویزات کے فقدان میں ان اسکیموں سے فائدہ اٹھا نہیں پاتے ہیں۔
دہلی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کے چیئرمین انوراگ کنڈو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ان سرکاری اسکیموں کے اہل بچوں کا کہنا ہے کہ دستاویزات کی ایک لامحدود فہرست ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ چکر لگانے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔”
بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایجنسیاں چاہتی ہیں کہ جو بچے یتیم ہوگئے ہیں، مناسب ہوگا کہ انہیں اس وقت تک قریبی رشتہ داروں کے ساتھ رکھا جائے جب تک وہ وہاں محفوظ رہیں اور ادارہ جاتی دیکھ بھال کو آخری صورت کے طور پر ہی اختیار کیا جانا چاہیے۔
بچوں کے حقوق کے لیے ‘حق‘ مرکز کی شریک بانی ایناکشی گانگولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،” سب سے پہلے تو ان بچوں کو ‘کووڈ یتیم‘ کے زمرے میں ڈالا جارہا ہے جس سے ان پر یتیمی کا کلنک لگ جائے گا لیکن اس سے بھی پہلے انہیں سرکاری امداد حاصل کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے والدین کووڈ کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کسی بچے کے لیے یہ سب کتنا مشکل اور تکلیف دہ ہوگا۔”
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ ضابطوں کو سہل بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کو یتیم خانوں میں بھیجنے کی ضرورت کم سے کم پیش آئے کیونکہ بھارت میں بالخصوص سرکاری امداد پر چلنے والے یتیم خانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ چائلڈ کیئر انسٹی ٹیوشنز یعنی یتیم خانوں کو بالعموم سرکاری امداد اورترقیاتی سرگرمیوں میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بھارت میں سرکاری طور پر چلنے والے 9500 سے زائد یتیم خانوں میں تقریباً تین لاکھ ستر ہزار بچے رہ رہے ہیں۔
کیٹالسٹس فار سوشل ایکشن نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ستیہ جیت مجمدار نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،” کووڈ انیس اور لاک ڈاؤن کے دوران بھارت میں یتیم خانوں کو خاطر خواہ حکومتی امداد نہیں ملی۔ وسائل کے فقدان کی وجہ سے بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال میں کافی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔”
مجمدار کا کہنا ہے کہ حکام اب یتیم کا ایک نیا زمرہ بنارہے ہیں۔ اس کے تحت صرف ایسے یتیم بچوں کو ہی مالی مدد ملے گی جن کے والدین کی کووڈ وائرس کی وجہ سے موت ہوئی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ، ” کیا کسی دوسرے سبب سے یتیم ہوجانے والے بچے ان یتیم بچوں سے مختلف ہیں؟”
یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیم ‘پریاس‘ کی دیپ شیکھا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،” کورونا وائرس کی وبا سے یتیم ہوجانے والوں کا تحفظ اور ان کی بہتر نگہداشت اس وقت ایک بہت اہم اور سنگین مسئلہ ہے۔ ان کی فوری طورپر لازمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ انہیں ذہنی صدمے سے نکالنے کے لیے کاونسلنگ کی بھی اشد ضرورت ہے۔”