دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں کورونا کیسز کے حقیقی اعداد و شمار کو چھپایا جارہا ہے، حقیقت میں کورونا کیسز کی تعداد نصف ارب سے زائد بھی ہو سکتی ہے۔
بھارت میں گزشتہ سال شروع ہونے والی عالمگیر وبا کورونا کے 1 کروڑ 76 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ لیکن ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے تیس گنا زائد بھی ہو سکتے ہیں۔
بھارت میں ہیلتھ ورکرز اور سائنس دانوں کافی عرصے سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کووڈ-19 انفیکشن اور اس سے ہونے والی اموات کی صحیح تعداد کو جان بوجھ کر رپورٹ نہیں کیا جارہا، جس کی اہم وجوہات خراب انفرا اسٹرکچر، انسانی غلطیاں، اور ٹیسٹ کی کم سطح ہیں۔
تاہم پہلی لہر کے بعد ٹیسٹنگ میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن اس کے باوجود کورونا کی دوسری لہراور اس کے پھیلاؤ سے ہونے والی تباہی بیان کردہ سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔
نئی دہلی میں سینٹرفار ڈیزیز ڈائنامکس اکنامکس اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر رمانن لکشمی نارائن کا کہنا ہے کہ ’ یہ بات مشہور ہے کہ کیسز کی تعداد اور شرح اموات دونوں کو حقیقی اعداد وشمار سے کم بتایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہمارا اندازہ تھا کہ تقریبا 30 انفیکشنز میں سے صرف ایک کو پکڑا گیا ہے، لہذا رپورٹ کیے گئے کیسز میں حقیقی انفیکشنز کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ لیکن اس سال شرح اموات کے بارے میں غلط اندارے لگائے گئے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حقیقت میں کتنی اموات ہورہی ہیں اور سرکاری طور پر کتنی اموات رپورٹ کی جا رہی ہیں۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن کی جانب سے تیار کردہ کورونا کے پِری ڈکشن ماڈل کے مطابق جنگ ابھی تک جاری ہے، بھارت میں کورونا سے روزانہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ شرح مئی کے وسط تک بڑھے گی۔ اس پیش گوئی کے مطابق بھارت میں شرح اموات 13 ہزار افراد فی دن تک پہنچ سکتی ہے، جو کہ موجودہ فی دن شرح اموات سے چار گنا زائد ہے۔
کمیونیٹی میڈیسن اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہیمنت شیوادی کا کہنا ہے کہ اس وبا سے پہلے بھی بھارت میں شرح اموات کو اصل سے کئی گنا کم دکھایا جاتا رہا ہے۔ عام حالات میں بھی حکومتی نظام میں ملک بھر میں ہونے والی اموات 86 فیصد تھیں، لیکن محض 22 فیصد ہلاکتوں کی ڈاکٹر کی تصدیق کے بعد آفیشلی مردے کا درجہ دیا گیا۔ بھارت میں زیادہ تر لوگوں کی موت اسپتال کے بجائے گھروں یا دیگر مقامات پر ہوتی ہے، لہذا عموما ڈاکٹر بھی موت کی وجہ بتانے کے لیے موجود نہیں ہوتے۔