حیدرآباد (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی شہر حیدرآباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے ملزمین کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت نے ماورائے عدالت قتل کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔
ستائیس سالہ خاتون ویٹنری ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی کے چاروں ملزمین کو چھ دسمبر کو پولیس نے اس وقت گولی مار دی تھی جب وہ انہیں جائے واردات پر دوبارہ منظر کشی کے لیے لایا گیا تھا لیکن ملزمین مبینہ طور پر پولیس سے ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔
بھارت کے مختلف شہروں میں چاروں ملزمین کوفوراً ‘کیفر کردار‘ تک پہنچانے پر لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ کئی ممبران پارلیمان نے اس کی تائید کی اور حیدرآباد میں شوٹنگ کے اس واقعہ میں شامل پولیس والوں پر پھول برسائے گئے۔ مقامی پولیس کے سربراہ وی سی سجنار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کہا ’’قانون نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔‘‘
جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت میں پولیس فائرنگ میں ملزمین کو اس طرح قتل کرنے کے واقعات عام ہیں۔ اسے عام طور پر ‘انکاؤنٹر‘ کہا جاتا ہے۔ انکاؤنٹر کے ایسے تمام واقعات میں پولیس عموماً ایک ہی طرح کی کہانی دہراتی ہے۔”ملزم پولیس سے ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کی اور پولیس پر فائرنگ بھی کی جس کی وجہ سے پولیس کو اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرنی پڑی، جس میں ملزم مارا گیا جب کہ پولیس کے (اتنے) جوان زخمی ہوگئے۔”
انسانی حقوق کے کارکنان تاہم پولیس کی اس کہانی پر ہمیشہ سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی پولیس کی یہ عادت انتہائی خطرناک ہے۔
سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور ’ہیومن رائٹس لا نیٹ ورک‘ کے بانی کولن گونزالویز کا کہنا ہے”ماورائے انصاف قتل اور حراست کے دوران جسمانی تشدد اب تو بھارت میں ایک طرح سے قانونی جواز حاصل ہوچکا ہے۔ لیکن یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ پولیس کے جرائم کو اب عوامی تائید بھی حاصل ہونے لگی ہے۔”
حیدرآبادکے چھ دسمبر کے واقعہ کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے نے ”فوری” انصاف کے استعمال پر تشویش کااظہار کیا ہے۔ جسٹس بوبڈے نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا ”انصا ف کبھی بھی فوری نہیں ہونا چاہیے۔ انصاف کو انتقام کی صورت کبھی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انصاف اگر انتقام میں بدل جائے تو یہ اپنی خوبی کھودیتا ہے۔”
بھارت کے پیچیدہ عدالتی نظام سے بچنے کے لیے ”منصوبہ بند قتل” کے اس طریقہ کار کا استعمال دہائیوں سے ہورہا ہے۔ مغربی بنگال، پنجاب، کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنے کے لیے پولیس فرضی انکاؤنٹر کا استعمال کرتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں انکاؤنٹر کا استعمال پرتشدد جرائم کے ملزمین کے خلاف بھی ہونے لگا ہے۔
بالی ووڈمیں بھی ‘انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ پر کئی فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ ان فلموں میں ایک افسر کو سینکڑوں جرائم پیشہ افراد کا مقابلہ کرتے ہوئے اور ان کو شکست دیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس اس طرح انکاؤنٹر کرکے کئی مقاصد اور اہداف حاصل کرلیتی ہے۔ وہ اسے معاملے کی تفتیش میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے، انعامات اور اعزازات حاصل کرنے کے لیے اور عوام کا غصہ اور ناراضگی کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق سن 2017 میں پولیس کی تحویل میں 100 ملزمین مارے گئے۔ جب کہ قتل کے ان واقعات میں ملوث جن 33 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ان میں کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہلاک کبے جانے والے ملزمین کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے کیوں کہ بہت سی اموات کو خودکشی یا فطری موت قرار دے کر ان پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے پولیس کے ہاتھوں قتل کے ایسے واقعات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے سن 2014 میں ایک حکم دیا تھا جس کی رو سے ایسے تمام معاملات کی انکوائری ضروری ہے اورانکاؤنٹر میں شامل افسران کو انعام و اعزاز سے نوازنے کا اعلان کرنے سے پہلے حکومتوں کو یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ شوٹنگ کا واقعہ کیوں اور کیسے پیش آیا۔ عدالت عظمیٰ شمال مشرقی ریاست منی پور کے ایسے ہی متعدد معاملات کی تفتیش کررہی ہے۔ جس کے حوالے سے انسانی حقوق کے گروپوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیس سن 2007 سے اب تک 1530مشتبہ ملزمین کو فرضی تصادم میں قتل کرچکی ہے۔
عدالت عظمیٰ اترپردیش میں ‘منصوبہ بند قتل‘ کے ایسے کم از کم 58 معاملات کی بھی سماعت کر رہی ہے جن میں ملزمین کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے 2017 میں جرائم کے خلاف جنگ میں ‘کوئی رحم نہیں‘ کی پالیسی کا اعلان کیا تھا اور وزیر اعلی ادیتیہ ناتھ کا یہ جملہ کافی مشہور ہوا تھا کہ ‘مجرموں کو ٹھوک دو‘۔
وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت پولیس کی زیادتیوں کو برداشت نہیں کرے گی۔ امیت شاہ جب گجرات کے وزیر داخلہ تھے اس وقت ان پربھی سن 2005 میں ایک گینگسٹر اور اس کی بیوی کو ماورائے عدالت قتل کرانے کا الزام عائد ہوچکا ہے۔ تاہم عدالت نے انہیں اس الزام سے بری کردیا تھا۔
پولیس کو پرتشدد جرائم کو نہیں روک پانے یا الزامات، بالخصوص جنسی زیادتی کے الزامات کوعدالت میں ثابت نہیں کرنے کے لیے اکثر نکتہ چینی کا شکار ہونا پڑ تاہے۔ بھارت میں عدالتی نظام بھی کافی پیچیدہ اور سست ہے۔ جنسی زیادتی اور قتل کے معاملات کا فیصلہ ہونے میں بعض اوقات برسوں بلکہ دہائیوں لگ جاتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت تیس ملین کے قریب معاملات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ معاملات جنسی زیادتی کے ہیں۔ دوسری طرف مجرموں کو سزا دلانے کی شرح صرف 32 فیصد ہے جب کہ مقدمات کے دوران متاثرین کو پولیس کے نامناسب سوالات کے علاوہ ملزمین کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ متاثرین کو انصاف میں تاخیر اور بعض اوقات انصاف نہیں مل پانا وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے ماورائے عدالت فیصلوں کو عوامی تائید ملنے میں اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن مہیر ڈیسائی کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے معاملات ہمارے عدالتی نظام کی ناکامی کی علامت بن چکے ہیں جہاں متاثرین اور مجرموں، دونوں ہی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ’پیپلز یونین فار سول لبرٹیز‘ کے ڈیسائی کا کہنا ہے ”یہ انصاف کی فراہمی کے نظام کی بڑی حد تک عکاسی کرتا ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے تئیں کس طرح ناکام ہورہی ہے۔ حیدرآباد کے واقعہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ”نوجوان خاتون کو انصاف نہیں ملا اور نہ ہی چاروں مقتولین کو انصاف مل سکے گا۔”