نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت میں سات اپریل سے شروع ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش اور پاکستان مخالف بیان بازی سیاسی جماعتوں کے وہ ہتھکنڈے ہیں جن سے وہ اپنے ووٹرز کو لبھا رہے ہیں۔
اس وقت کی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کو اپنی جماعت کا وزیراعظم کیا نامزد کیا انہوں نے تو خود کو بھارتی وزیراعظم بھی کہنا شروع کر دیا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ تو حکمران جماعت کانگریس کو دھرتی پر بوجھ بھی سمجھنے لگے ہیں۔
چندی گڑھ میں انتخابی ریلی سے خطاب میں مودی نے کہا کہ بھارت کو کانگریس سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اتر پردیش میں انتخابی جلسے سے خطاب میں راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نفرت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔ جبکہ بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے بھی نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام حب الوطنی کے خلاف ہے۔ ادھر طرف بھارتی جھارکنڈ کے مختلف علاقوں میں مائو باغیوں کی طرف سے لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کریں اور اس کے لیے انہوں باغیوں نے دھمکی آمیز پمفلٹ بھی تقسیم کئے ہیں۔
مائو باغیوں کے علاقوں میں انتخابات کے لیے سیکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔ بھارتی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل انتخابات سات اپریل سے شروع ہوں گے۔ نو مرحلوں میں انتخابات بارہ مئی کو مکمل ہوں گے اور سولہ مئی کو لوک سبھا کے نتائج جاری کر دیئے جائیں گے۔ اس بار دس کروڑ ووٹرز میں اضافے سے اکیاسی کروڑ 45 لاکھ افراد ووٹ کاسٹ کریں گے جو نہ صرف عالمی ریکارڈ ہے بلکہ یہ براعظم یورپ کے تمام ووٹرز سے زیادہ بڑی تعداد ہے۔
لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے سادہ اکثریت کے لیے 272 نشستیں درکار ہوں گی لیکن حالیہ سروے رپورٹس کے مطابق کانگریس اور بی جے پی دونوں تن تنہا یہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے اکثریتی جماعت کو اتحاد کی ضرورت پڑے گی۔