بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی حکومت نے غیر ملکی میڈیا کی ان رپورٹوں کو مسترد کر دیا ہے، جن کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس سے ہونے والے اموات کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے تین گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ بیرونی دنیا کے بعض میڈیا اداروں کی وہ اطلاعات غلط اندازوں پر مبنی پر ہیں، جن میں بھارت میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد کم بتائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
حکومت نے اس سلسلے میں معروف امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے اس مضمون پر شدید نکتہ چینی کی ہے، جس میں کہا گيا ہے کہ بھارت میں کووڈ انیس کے باعث اموات کے اعداد و شمار بہت کم رپورٹ کیے گئے ہیں اور حقیقت میں سرکاری تعداد سے کہیں زیاد لوگ اس وبا سے مر چکے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس وبا سے اموات بھی زیادہ ہوئی ہوں۔
نیو یارک ٹائمز نے دو روز قبل بھارت میں کورونا وائرس کے بحران سے متعلق ایک خصوصی تحقیقاتی مضمون ”بھارت میں کووڈ سے ہونے والی اموات کی درست تعداد کتنی ہو سکتی ہے‘‘ شائع کیا تھا۔ اس اخبار نے اینٹی باڈی ٹیسٹ کا ڈیٹا جمع کرنے والے تین بڑے ملکی اداروں کے اعداد و شمار کے حوالے سے لکھا تھا کہ بھارت میں کورونا وائرس سے تین لاکھ افراد کی ہلاکت کی بات کہی جا رہی ہے تاہم اصل میں یہ تعداد تین گناہ زیادہ ہے۔
اخبار نے اپنے مضمون میں کئی اندازوں اور منظر ناموں پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے لکھا کہ کسی بھی صورت میں اس وقت تک ”کم سے کم چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہوں گے اور بھارتی حکومت نے ملک میں مجموعی طور پر اس وبائی مرض کی اصل سطح کو کم کر کے پیش کیا ہے۔‘‘
اخبار نے اس سلسلے میں دنیا بھر کے ان دیگر ممالک کے ڈیٹا کا حوالہ بھی دیا، جہاں صحت کا نظام اور طبی سہولیات بھارت سے کہیں بہتر ہیں۔ جریدے نے لکھا کہ بہت سے لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے تاہم ان کا نہ تو کبھی ٹیسٹ ہوا اور نہ ہی ان کی موت کے لیے کورونا کی وبا کو ذمہ دار تسلیم کیا گيا۔
خود عالمی ادارہ صحت نے بھی گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کے اندازوں کے مطابق عالمی سطح پر کووڈ 19 سے مرنے والوں کی اصل تعداد متعلقہ حکومتوں کی طرف سے بتائی گئی تعداد سے دو سے تین گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔
بھارت نے تاہم اس رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ غلط اندازوں پر مبنی ہے اور اس دعوے کے حق میں پیش کرنے کے لیے ثبوت کوئی بھی نہیں۔ بھارت میں کووڈ ٹاسک فورس کے سربراہ وی کے پال کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حکومت نے کووڈ سے ہونے والی اموات کے سلسلے میں کوئی پردہ پوشی کی ہو۔
ان کا کہنا تھا، ”یہ ممکن ہے کہ موت کی خبر رپورٹ کرنے میں تاخیر ہوئی ہو۔ لیکن مرکزی یا پھر کسی ریاستی حکومت کی ایسی کوئی نیت نہیں تھی۔ اگر میں نیو یارک ٹائمز کے پیمانے کو ہی استعمال کروں، تو اموات کی تعداد پچاس ہزار زیادہ تک ہو سکتی ہے۔ مگر وہ تو چھ لاکھ بتا رہے ہیں، جو غلط ہے۔‘‘
وی کے پال کا کہنا تھا کہ بھارت میں ابتدا سے ہی کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کا ڈیٹا جمع کیا جا تا رہا ہے اور اخبار کو ”اس طرح کی خبر شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ یہ خبر بے بنیاد اور بغیر کسی ثبوت کے ہے۔‘‘
دوسری طرف بھارت کے بہت سے آزاد ذرائع بھی حکومتی اعداد و شمار پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایک تو ملک میں ٹیسٹنگ کی سہولیات کم رہی ہیں اور پھر ہسپتالوں میں جگہ بھی نہیں تھی۔ اس لیے بہت سے لوگوں کا گھروں میں ہی انتقال ہوا، جس کا کسی کے پاس کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔
اطلاعات کے مطابق بیشتر ہسپتال ایسے مریضوں کی موت کے سرٹیفیکيٹس پر بھی موت کی وجہ کورونا لکھنے سے گریز کرتے ہیں، اس لیے بھی اصل تعداد کا تعین بہت مشکل ہے۔ نجی ہسپتالوں میں کورونا سے ہلاک ہونے والوں کا بھی کوئی درست ریکارڈ نہیں رکھا جا رہا جبکہ دیہی علاقوں میں، جہاں اب یہ وبا زور پکڑتی جا رہی ہے، وہاں کی صورت حال کے بارے میں تو کسی کے پاس بھی کوئی قابل اعتماد ڈيٹا یا معلومات نہیں ہیں۔
اسی دوران بھارت میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں پہلی بار کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی شرح میں اچھی خاصی کمی دیکھی گئی ہے۔ 28 مئی جمعے کے روز حکام نے بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ایک لاکھ 86 ہزار 364 نئے کیسز سامنے آئے اور گزشتہ 44 دنوں میں متاثرین کی یہ سب سے کم روزانہ تعداد ہے۔
گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران تین ہزار 660 افراد کا انتقال بھی ہوا اور اس طرح بھارت میں اس وبا سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب تین لاکھ پندرہ ہزار 235 ہو گئی ہے۔ امریکا اور برازیل کے بعد بھارت دنیا کا ایسا تیسرا ملک ہے جہاں اب تک کورونا وائرس کے باعث تین لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بھارت میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد اب دو کروڑ 75 لاکھ 55 ہزار کے قریب ہو چکی ہے جبکہ اس وقت تقریباﹰ 24 لاکھ متاثرین ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
بھارت میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن مہم بہت زور شور سے شروع کی گئی تھی مگر وہ ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے بھارت میں ابھی تک صرف بیس کروڑ افراد کو بمشکل ایک ہی ٹیکہ لگایا جا سکا ہے۔
اکثر ریاستوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ویکسین نہیں ہے، اس لیے اس مہم کو تیز رفتاری سے چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت نے کہا تھا کہ ریاستی حکومتیں خود بین الاقوامی کمپنیوں سے ویکسین خریدنے کا اہتمام کریں تاہم بیرونی کمپنیوں نے اس بارے میں ریاستی حکومتوں سے براہ راست بات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ صرف بھارت کی مرکزی حکومت سے ہی بات چيت کریں گی۔
اسی دوران بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر امریکا کے دورے پر ہیں، جہاں وہ امریکی حکام اور مختلف کمپنیوں سے ویکسین حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارتی حکومت نے دوسری لہر سے قبل ہی اس وبا پر قابو پانے کا اعلان کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ پوری دنیا کی مدد کے لیے بھی تیار ہے۔