اسلام آباد (جیوڈیسک) بھارتی حکومت کی طرف سے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اعلان پر پاکستان میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور پاکستان کے کئی شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان کے کئی شہروں اور پاکستان کے زیرِ اتنظام کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان مظاہروں میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کی گئی اور بھارتی فیصلے کی مذمت کی گئی۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر بھی یہ فیصلہ موضوع بحث ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اسی کا چرچا ہے۔ اس فیصلے سے لائن آف کنٹرول کی پاکستان سائیڈ پر رہنے والے کشمیریوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ علاقے میں پھر کوئی چھڑپ ہونے جارہی ہے۔
پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے اپنے معمول کے ایجنڈے کو معطل کر کے بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر پاکستان نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل منگل چھ اگست کو طلب کر لیا ہے جب کہ پاکستانی فوج بھی اس پر غور وغوض کے لیے کل کورکمانڈرز کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اس فیصلے کی بھر پور مذمت کرتا ہے اور یہ کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس طرح کے فیصلوں سے اس کی بین الاقوامی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیری اس فیصلے کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کریں گے اور یہ کہ پاکستان تنازعہ کشمیر کے فریق کے طور پر اس غیر قانونی اقدام کے خلاف ہر ممکنہ قدم اٹھائے گا۔
بھارتی فیصلے سے لائن آف کنٹرول کی پاکستان سائیڈ پر رہنے والے کشمیریوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ علاقے میں پھر کوئی چھڑپ ہونے جارہی ہے۔
پاکستان کے زیرِ اتنظام کشمیر کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر نے بھی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس فیصلے کو کشمیر تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ بھارت کشمیریوں کے حقوق سلب کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان پہلے ہی اس مسئلے پر بھارت کوخبر دار کر چکا ہے اور اسلام آباد نے وارننگ دی ہے کہ وہ اگر نئی دہلی نے کوئی ایڈونچر کیا تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیرکے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ نئی دہلی ایسے موقع پر کوئی ایڈ ونچر کر سکتا ہے۔
پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق کا کہنا ہے کہ بھارت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر ایک بار پھرنیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے: ”اس بات کا قومی امکان ہے کہ بھارت کوئی مس ایڈونچر کرے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بہت خطرناک ہوگا کیونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ایسے مرحلے پر بھارتی قیادت کو دانشمندی کا ثبوت دینا چاہیے اور امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پاکستان سے بہتر تعلقات کی صورت میں بھارت کو سی پیک کا حصہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کو وسطی ایشیا تک رسائی دی جا سکتی ہے۔ اس سے بھارت اور خطے دونوں کو فائدہ ہے لیکن بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے اور کشمیر کے اسٹیٹس کو تبدیل کر کے وہاں کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور ان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ جس سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی اور کشمیری اس کی بھر پور مزاحمت کریں گے۔‘‘
صدر پاکستان نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل منگل چھ اگست کو طلب کر لیا ہے۔
انہوں نے بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں مزید فوج بھیجنے کی بھی منطق پر سوال اٹھائے: ”کشمیر میں سات لاکھ فوج پہلے ہی موجود ہے۔ تیس سے چالیس ہزار ابھی بھیجے جارہے ہیں جب کہ مجموعی طور پر بھارت ایک لاکھ اور فوجی بھیجنا چاہ رہا ہے۔ اس کا مقصد وہاں تیس سے چالیس لاکھ لوگوں کو آباد کر کے کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ جس کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔‘‘
اس بھارتی فیصلے پر وہ کشمیری تنظیمیں بھی چراغ پا ہیں جن کے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ کشمیر کی خود مختاری کے لیے کام کرنے والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اس فیصلے کو بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم کی موت سے تشبیہ دے رہی ہے۔ پاکستان کے زیرِ اتنظام کشمیر میں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر توقیر گیلانی نے اس فیصلے پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”آرٹیکل تین سو ستر کو منسوخ کرنے کا فیصلہ بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے ایک انتہا پسند فاشسٹ ہندو سیاسی جماعت نے بھارتی آئین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس آرٹیکل کی بنیاد پر ہی بھارت کا کشمیر پر دعویٰ تھا۔ اس کو ختم کر کے نئی دہلی نے خود اپنے ہی دعوے کی تردید کر دی ہے۔ مودی سرکار کشمیری قیادت کو گرفتار کر کے اور عوام میں خوف پھیلا کر یہ فیصلہ مسلط کر رہی ہے۔ جس کے انتہائی خطرناک نتائج نکلیں گے۔ دنیا بھر کے کشمیری اس فیصلے کے خلاف بھر پور مزاحمت کریں گے۔‘‘
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اس فیصلے کی بھر پور مذمت کرتا ہے اور یہ کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس طرح کے فیصلوں سے اس کی بین الاقوامی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کشمیر کے مسلمان، سکھ، ہندو اور دوسرے تمام مذاہب کے کشمیری سراپا احتجاج ہیں: ”ہم اپیل کرتے ہیں بین الاقوامی برادری سے کہ وہ اس بھارتی فیصلے کی بھر پور مذمت کرے اور نئی دہلی کو یہ فیصلہ بدلنے پر مجبور کرے ورنہ پورا خطہ ایک خوفناک جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، جس سے دونوں ممالک کے انتہا پسندوں کو فائدہ ہوگا اور خطے کی کروڑوں عوام کو نقصان۔‘‘
اس فیصلے کے خلاف غصے کی یہ لہر پاکستان کے شمالی علاقے گلگت میں بھی پہنچ گئی ہے۔ اس بھارتی فیصلے کی مذمت گلگت کے سیاسی رہنما بھی کر رہے ہیں۔ قراقرم نیشنل موومنٹ کے رہنما شیر بابو نے اس مسئلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار داد کے خلاف ہے، جس کے پورے خطے پر بہت خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ مودی سرکار کشمیر کی عوام کو دہشت زدہ کر کے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔‘‘