بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے ملک کے سرکردہ وکیل اور معروف سماجی کارکن پرشانت بھوشن کی بھارتی عدلیہ سے متعلق بعض متنازعہ ٹویٹ کے حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی شروع کی ہے۔
بھارت کی عدالت عظمی نے اپنے ہی کورٹ کے سرکردہ وکیل پرشانت بھوشن کی دو ٹویٹ کے خلاف توہین عدالت کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی شروع کی ہے۔ پرشانت بھوشن نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھارتی جمہوریت کی تباہی میں سپریم کورٹ کے چار سابق چیف جسٹس کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ دوسری ٹویٹ میں انہوں نے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوڈے پر نکتہ چینی تھی۔
انہوں نے لکھا کہ بھارتی چیف جسٹس نے کورونا وباکے دور میں ہیلمٹ اور ماسک کے بغیر موٹر سائیکل کی سواری کی جبکہ عدالت کو لاک ڈاؤن میں رکھ کر لوگوں کو انصاف جیسے حق سے محروم رکھا۔
خیال رہے کہ کچھ روز قبل چیف جسٹس ایس اے بوڈے کی ایک تصویر، جس میں وہ مہنگی ترین بائیک پر بغیر ہیلمٹ اور ماسک کے بیٹھے ہوئے تھے، وائرل ہوگئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ٹویٹر انڈیا’ کو بھی نوٹس بھیجا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عدالت عظمی کو زیادہ اعتراض ان کی کس ٹویٹ پر ہے۔ پہلی ٹویٹ میں پرشانت بھوشن نے لکھا تھا، ”مستقبل میں مورخین جب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران باضابطہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بغیر ہی بھارتی جمہوریت کو کس طرح سے تباہ کیا گیا، تو وہ اس تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی خاص طور پر نشاندہی کریں گے، بالخصوص سپریم کورٹ کے چار سابق چیف جسٹسز کا۔”
پرشانت بھوشن حالیہ دنوں میں عدالت عظمی پر اس حوالے سے نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران عدالت مہاجر مزدروں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کورونا وبا کے دور میں متعدد سیاسی قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے بھی عدالتوں کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ پرشانت بھوشن کشمیر سمیت ملک کے متعدد علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور مذہبی فسادات کے خلاف بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سرکردہ وکیل اور معروف سماجی کارکن سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ پرشانت بھوشن کی دو ٹویٹ ہیں اور ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عدالت کو کون سا بیان ناگوار گزرا ہے جس کے خلاف ان پر توہین عدالت کا مقدمہ چلے گا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ”آج پہلی سماعت کے بعد یہ واضح ہوجائیگی عدالت کس بات سے ناخوش ہے۔”
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا واقعی اب عدالتیں حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں توان کا کہنا تھا، ”میں کئی برس پہلے ہی یہ بات لکھا چکا ہوں، کہ جس دن ملک میں اکثریت والی حکومت آجائے گی تو عدالتیں بھی اسی کی تقلید کریں گی اور ان کے موافق ہوجائیں گی۔ تو جیسے جیسے اکثریت بڑھتی گئی ماحول بھی اکثریت کی طرف بدلتا گیا اور آج عدالت اسی کی عکاس ہے۔”
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین تو تحریر شدہ ہے، ”تاہم آئین کی تشریح بھی ماحول کے حساب سے بدل دی جاتی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی کو حکم دیا جائے تو وہ اسے نا پسند کرتا ہے لیکن اگر حکم دینے سے پہلے اسے حکم کا ادراک ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو بڑا عقل مند سمجھتا ہے، ”آج کل کے عدالتوں کی کارروائی کے بارے میں بھی یہ بات صادق آتی ہے۔”
سپریم کورٹ کے ایک اور سرکردہ وکیل ایم آر شمشاد کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں اس طرح کی ٹویٹ پر توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ چند برس قبل تک ”جس طرح انسانی حقوق، حکومتی نظام اور لنچنگ وغیرہ جیسے معالات پر بھارتی عدالتیں فعال رد عمل ظاہر کیا کرتی تھیں اب ویسا نہیں ہے۔”
وکیل مجیب الرحمان اور محمود پراچہ کابھی کہنا تھا کہ اس وقت بھارتی عدالتیں حکومت کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔ بھارتی ریاست کشمیر کے ایک ہند نواز رہنما نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے بھارتی سپریم کورٹ کا رویہ کافی مایوس کن رہا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ اس وقت عدالتیں حکومت کے کیسز کے حوالے سے بہت فعال ہیں جبکہ عوامی معاملات میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں۔