آندھرا پردیش (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں اچانک سینکڑوں لوگ پراسرار بیماری میں مبتلا ہونے لگے۔ طبی معائنوں سے پتا چلا کہ متاثرہ مریضوں میں بھاری دھاتوں کے آثار پائے گئے، تاہم اب بھی اس کی حتمی تشخیص نہیں ہو پائی ہے۔
بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں سینکڑوں لوگ جس پراسرار مرض سے اچانک بیمار ہونے لگے تھے ان میں ڈاکٹروں کو نکل اور سیسوں جیسی دھاتوں کے آثار ملے ہیں۔ اس پر اسرار بیماری کی ابتدائی تشخیص گزشتہ سنیچر کو ہوئی تھی جب اچانک لوگ سردرد، چکر اور قے جیسی علامات کے بعد بے ہوش ہونے لگے تھے۔ اب تک مقامی ڈاکٹر ایسے کم سے کم 555 مریضوں کا علاج کر چکے ہیں۔
یہ واقعہ آندھرا پردیش کے ایلورو شہر کا ہے جہاں صحت کے ماہرین اس بات پر حیران تھے کہ آخر یہ کونسی نئی بیماری ہے کہ چکر اور قے یا متلی جیسی علامات کے بعد لوگ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ مقامی سطح پر اس کے کئی پہلوؤں کی جانچ کی گئی تاہم جب بات سمجھ میں نہیں آئی تو حکومت نے پر اسرار بیماری کی جانچ کے لیے ماہرین کی کئی ٹیمیں روانہ کیں۔
ایک سرکاری ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹر اے ایس رام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، “بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ بڑے پیمانے پر ہسٹیریا یا اعصابی تناؤ کی وجہ سے ہے تاہم یہ درست نہیں ہے۔ بیشتر مریض اس طرح کے آرہے ہیں جن کے سروں میں معمولی چوٹ یا پھر آنکھ سیاہ ہوتی ہے، کیونکہ وہ دورہ پڑنے کی وجہ سے اچانک گر جاتے ہیں۔ لیکن ایسے بیشتر مریض ایک یا دو گھنٹے بعد ہی ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں۔”
حکام کے مطابق اس واقعے میں اب تک ساڑھے پانچ سو افراد کا علاج کیا جا چکا ہے اور بہت سے لوگ اب بھی اسپتالوں میں بھرتی ہیں۔ ایک 45 سالہ شخص ہلاک بھی ہوا ہے جبکہ متاثرین میں تقریباً تین سو بچے شامل ہیں۔ ایسے بیشتر بچوں میں سر درد، چکر، الٹی اور بے ہوشی جیسی علامات پائی جاتی ہیں۔
ایلورو میں سرکاری ہسپتال کے سربراہ اے وی موہن کا کہنا ہے کہ ایسے 10 مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں بڑی مقدار میں نکل اور سیسے کی مقدار پائی گئی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی تصدیق اور تعین کے لیے کہ اس بیماری کی وجہ سیسہ اور نکل کی مقدار ہی ہے محض دس مریضوں کے ‘سیمپلز‘ یا طبی نمونے بہت کم ہیں۔
حکام نے ان دھاتوں کی وجہ اور ان کو کیسے پھیلایا گیا ؟ اس بارے میں بھی انکوائری شروع کر دی ہے۔ اس علاقے میں پانی اور دودھ کی سپلائی کی جانچ پہلے ہی کی جا چکی ہے جبکہ علاقے میں کہیں آس پاس کوئی کیمیائی فیکٹری بھی نہیں ہے۔ نیشنل میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین اس سلسلے میں کھانے پکانے والے تیل کی بھی جانچ کر رہے ہیں۔
ضلعی حکام کو اندیشہ ہے کہ اس بیماری کی وجہ کیڑے مار دواؤں اور کھیتوں میں چھڑکاؤ کے لیے استعمال ميں آنے والے دیگر کیمائی مادے بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم ماہرین کی کسی بھی ٹیم نے اب تک حتمی طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ بیماری کی اصل وجہ کیا ہے۔
اس سے قبل محکمہ صحت کے حکام نے کہا تھا کہ متاثرہ افراد کے خون کے نمونوں کی جانچ کی گئی اور ان کے دماغ کا سی ٹی اسکین بھی کیا گيا ہے اس کے باوجود اس کا تعین نہیں ہوسکا کہ یہ کس قسم کی بیماری ہے۔ حکام کے مطابق اس سلسلے میں کئی دیگر ٹیسٹ بھی کیے گئے ہیں جس کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔
ایسے تمام مریضوں کا کورونا ٹیسٹ بھی کیا گيا اور سب کی جانچ کی ‘رپورٹ نیگیٹیو‘ آئی ہے۔ دہلی میں مرکزی حکومت کی جانب سے بھی ماہرین کی ایک خاص ٹیم بھیجی گئی ہے جو علاج میں مقامی صحت کے حکام کی مدد کر رہی ہے۔ اس دوران علاقے میں گھر کھر جاکر اس بات کا سروے بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر دوسرے لوگ بھی اسی طرح کے مرض میں مبتلا ہوں تو ان کی شناخت کی جا سکے۔