بہار (جیوڈیسک) بھارت میں دماغی بخار کی وبا نے بچوں کا قتل عام شروع کر دیا ہے۔ وبائی مرض کے نتیجے میں اب تک 152 بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں اور حکومت اس سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
بھارتی ریاست بہار میں حکام کا کہنا ہے کہ اکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم (اے ای ایس) یعنی شدید دماغی بخار سے ڈیڑھ سو سے زیادہ بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
ریاست کے دو بڑے ہسپتالوں میں ابھی بھی سیکڑوں مریض زیر علاج ہیں ان میں بہت سے بچے ایسے ہیں جن کی عمر دس برس سے کم ہے۔
ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ بیشتر اموات ‘ہائپوگلیسیمیا’ یعنی خون میں شوگر کی مقدار بے حد کم ہونے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
دماغی بخار کا پہلا معاملہ انیس سو ستر میں سامنے آیا تھا اور تب سے بہار اور اترپریش میں اس بخار سے ہزاروں بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ صرف بہار میں گذشتہ ایک عشرے کے وران 1350 بچوں کی اموات ہوچکی ہیں جن میں 355 بچے صرف ایک سال یعنی 2014ء کو انتقال کرگئے۔
جون کے مہینے میں شروع ہونے والی اس بیماری سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بہار کے مظفرپور علاقے میں ہوئی ہیں۔ یہ بیماری اکثر مون سون کے موسم میں پھیلتی ہے اور اس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔
انڈیا میں انیس سو ستر سے اب تک ہزاروں بچے دماغی بخار سے ہلاک ہوچکے ہیں
دو ہزار پانچ تک ڈاکٹروں کا یہ موقف تھا کہ بیشتر اموات جاپانی انسیفلائٹس یعنی جاپانی دماغی بخار سے ہوتی ہیں جو مچھروں کے کانٹے سے ہوتا ہے۔
لیکن گزشتہ تقریبا دس برسوں سے بچے دیگر وائرل دماغی بخار سے مر رہے ہیں جس کی اصل وجہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس بخار میں پہلے سر میں درد ہوتا ہے اور الٹی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد مریض کوما میں چلا جاتا ہے ، دماغ ناکارہ ہوجاتا ہے اور دل اور گردوں پر سوجن آ جاتی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بیماری سے سب سے زیادہ چھ ماہ سے لے کر پندرہ برس تک کی عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور جو بچے علاج کے بعد بچ جاتے ہیں وہ تا عمر دماغی کمزوری کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔
ڈاکٹروں اور مقامی حکام کا کہنا ہے ‘خوراک کی کمی اور خون میں چینی اور نمک کا صحیح توازن نہ ہونا بھی ان اموات کی وجہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر کانیریا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان اموات کی ایک وجہ خالی پیٹ پر لیچی کھانا بھی ہوسکتا ہے۔ ان اموات کے پیچھے ایک وجہ خالی پیٹ لیچی کھانا بھی بتایا جا رہا ہے
جن بچوں کی اموات ہوئیں ان میں سے بعض ایسے تھے جن کو رات کا کھانا میسر نہیں تھا اور ان کا شوگر لیول کم تھا۔ ان اموات کے پیچھے لیچی کھانے کی بات پر کسان ناراض ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس بیماری کا صحیح اندازہ نہیں لگا پارہی ہے اور اس کے لیے لیچی کو ذمہ دار ٹھہرانا آسان ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ لیچی کو ان اموات کا ذمہ دار اس لیے ٹھہرایا جارہا ہے کیونکہ اس دماغی بخار کی وجہ سے بچوں کی اموات اور لیچی کی فصل کا وقت ایک ہی ہے۔
‘اگر لیچی کھانے سے بچے مرتے تو بڑے شہروں کے گھروں کے بچے بھی مرتے لیکن ایسا تو نہیں ہے۔ صرف غریب گھروں کے خوراک کی کمی کا شکار بچے ہی متاثر ہو رہے ہیں’۔
بہار میں بڑے پیمانے پر لیچی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف گرمیوں کے شروع کے پندرہ دنوں میں یہاں ڈھائی لاکھ ٹن سے زیادہ لیچی پیدا ہوئی ہے۔